لفظ مل جائیں تو اشعار کی تشکیل کروں
لفظ مل جائیں تو اشعار کی تشکیل کروں
ورنہ کس طرح خیالات کی ترسیل کروں
حق محبت کا کہاں ہوتا ہے مرنے سے ادا
حق تو یہ ہے کہ تجھے روح میں تحلیل کروں
آپ تو اپنی انا سے نہیں نکلے باہر
مجھ سے کہتے ہیں کہ میں نظریہ تبدیل کروں
تشنگی تو ہے مری ذات میں صحرا کی طرح
کیسے سوکھی ہوئی آنکھوں کو بھلا جھیل کروں
جب انا ہے مری رگ رگ میں سرایت عنبرؔ
کس طرح اس کے ہر اک حکم کی تعمیل کروں