پیش ہر عہد کو اک تیغ کا امکاں کیوں ہے
پیش ہر عہد کو اک تیغ کا امکاں کیوں ہے
ہر نیا دور نئے خوف میں غلطاں کیوں ہے
شہر کے شہر ہی بے ہوش پڑے پوچھتے ہیں
زندگی اپنے عمل داروں سے نالاں کیوں ہے
آئنہ عکس معطل تو نہیں کرتا کبھی
اتنا بے آب مگر آئینۂ جاں کیوں ہے
پھر سے مطلوب خلائق ہے گواہی کوئی
بر سر کوہ سیہ شعلۂ لرزاں کیوں ہے
یہ عمل ہے خس و خاشاک کی چھدرائی کا
رنگ رنگین گل و لالہ پریشاں کیوں ہے