شعاعیں ایسے مرے جسم سے گزرتی گئیں
شعاعیں ایسے مرے جسم سے گزرتی گئیں
لہو میں جیسے مرے کرچیاں اترتی گئیں
نہ جانے چہرے ہوں آئندہ نسل کے کیسے
بس ایک خوف سے میری رگیں سکڑتی گئیں
مجھے تو لگتے ہیں ناخن بھی اپنے زہر بجھے
میرے لیے تو مری انگلیاں بھی مرتی گئیں
جزیرے کتنے گراں پانیوں کی گود میں ہیں
پناہ کے لئے سوچیں مری بکھرتی گئیں
یہ گردشوں کا توازن بگڑ نہ جائے کہیں
اسی طرح جو زمیں کی تہیں ادھڑتی گئیں
خلا حیات کے امکاں سے تو نہیں عاری
پہ جستجوئیں کچھ اپنی ہی ماند پڑتی گئیں