Akhilesh Tiwari

اکھلیش تیواری

اکھلیش تیواری کی غزل

    اڑا کے پھر وہی گرد و غبار پہلے سا

    اڑا کے پھر وہی گرد و غبار پہلے سا بلا رہا ہے سفر بار بار پہلے سا وہ ایک دھند تھی آخر کو چھٹ ہی جانا تھی دکھائی دینے لگا آر پار پہلے سا ندی نے راہ سمندر کی پھر وہی پکڑی صدائیں دیتا رہا ریگزار پہلے سا کہیں ڈھلان مقدر نہ ہو بلندی کا چڑھائی پھر نہ ہو اپنا اتار پہلے سا سوال کیوں نہ ...

    مزید پڑھیے

    جوڑ کر رکھی ہوئی سب پائی پائی لے اڑی

    جوڑ کر رکھی ہوئی سب پائی پائی لے اڑی دنیا احساسات کی گاڑھی کمائی لے اڑی مطمئن تھے راز دل ہم میں کہیں محفوظ ہے اس کو بھی تنہائی کی پر آوا جائی لے اڑی ایک صدا آئی قفس کے پار بھی کوئی جال ہے آشیاں کی اور جب ہم کو رہائی لے اڑی سچ کی عریانی پہنتی کیوں قبا تحریر کی چھین لی مجھ سے قلم ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑنے دیتی نہیں ڈھونڈھ ہی نکالتی ہے

    بچھڑنے دیتی نہیں ڈھونڈھ ہی نکالتی ہے عجیب ہے نہ مجھے بے خودی سنبھالتی ہے میں کب کا ہار چکا زندگی تری بازی ہوا میں کس لئے سکہ نیا اچھالتی ہے ہوا ہے شک مری تنہائی کو مجھے لے کر الٹ پلٹ کے ہر ایک چیز کو کھنگالتی ہے جھلس نہ دیں کہیں سچائیاں اسے اک دن وہ خواب آنکھ جسے چھانو چھانو ...

    مزید پڑھیے

    ایک وہی معمول نبھانا ہوگا پھر

    ایک وہی معمول نبھانا ہوگا پھر خود کو کھو کر خود کو پانا ہوگا پھر راہ گزر تنہائی کی ہے دھیان رہے رستے میں ہی ایک زمانہ ہوگا پھر راہ بھٹک جاؤ اب کے یہ ممکن ہے پر اس جنگل میں سے جانا ہوگا پھر جن کی آسانی ہی جن کی مشکل ہے ان لفظوں کو ہی دہرانا ہوگا پھر وہ پھل دار درخت گرایا آندھی ...

    مزید پڑھیے

    ندی کا کیا ہے جدھر چاہے اس ڈگر جائے

    ندی کا کیا ہے جدھر چاہے اس ڈگر جائے مگر یہ پیاس مجھے چھوڑ دے تو مر جائے کبھی تو دل یہی اکسائے خامشی کے خلاف لبوں کا کھلنا ہی اس کو کبھی اکھر جائے کبھی تو چل پڑے منزل ہی راستے کی طرح کبھی یہ راہ بھی چل چل کے پھر ٹھہر جائے کوئی تو بات ہے پچھلے پہر میں راتوں کے یہ بند کمرہ عجب روشنی ...

    مزید پڑھیے

    روشنی تیز ہوئی کوئی ستارا ٹوٹا

    روشنی تیز ہوئی کوئی ستارا ٹوٹا دھار میں اب کے ندی کا ہی کنارا ٹوٹا تھرتھراتے ہوئے لب چپ تو لگا بیٹھے پر چپ نے ہی جوڑا بھی اظہار ہمارا ٹوٹا در بدر پھرتا کوئی خواب مرا آوارہ رات آنکھوں میں چلا آیا تھا ہارا ٹوٹا جانے کس موڑ پہ بچھڑی وہ صدا ماضی کی ایک تنکے کا سہارا تھا سہارا ...

    مزید پڑھیے

    ملاحظہ ہو مری بھی اڑان پنجرے میں

    ملاحظہ ہو مری بھی اڑان پنجرے میں عطا ہوئے ہیں مجھے دو جہان پنجرے میں ہے سیرگاہ بھی اور اس میں آب و دانہ بھی رکھا گیا ہے مرا کتنا دھیان پنجرے میں اس ایک شرط پر اس نے رہا کیا مجھ کو رکھے گا رہن وہ میری اڑان پنجرے میں یہیں ہلاک ہوا ہے پرندہ خواہش کا تبھی تو ہیں یہ لہو کے نشان پنجرے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کے نہ تھے آثار بند کمرے میں

    روشنی کے نہ تھے آثار بند کمرے میں وہ تو لو دے اٹھا کردار بند کمرے میں ہے گزر اپنا ہی مشکل تو پھر تعجب ہے کس طرح آ گیا بازار بند کمرے میں شعر جتنے کہے خارج کیے سوا اس سے صرف پرزوں کا ہے انبار بند کمرے میں چاند تاروں سے الگ ایک اور دنیا ہے بانچتا تھا کوئی اخبار بند کمرے میں تجربہ ...

    مزید پڑھیے

    کہنے کو کمرے میں سارے یکجا بیٹھے ہیں

    کہنے کو کمرے میں سارے یکجا بیٹھے ہیں اپنے اپنے موبائل پر تنہا بیٹھے ہیں اپنے ہی خوابوں کو کرکے پنجرہ بیٹھے ہیں کرنے کیا آئے تھے لیکن کر کیا بیٹھے ہیں جانے کس کے ہاتھ لگا چہرہ جو اپنا تھا بے مطلب کب سے لے کر آئینہ بیٹھے ہیں ایک سبق رٹتے تو ہیں پر یاد نہیں ہوتا طفل مکتب کب سے ...

    مزید پڑھیے

    وہم ہی ہوگا مگر روز کہاں ہوتا ہے

    وہم ہی ہوگا مگر روز کہاں ہوتا ہے دھندھ چھائی ہے تو اک چہرہ عیاں ہوتا ہے شام خوش رنگ پرندوں کے چہک جانے سے گھر ہوا جاتا ہے دن میں جو مکاں ہوتا ہے وو کوئی جذبہ ہو الفاظ کا محتاج نہیں کچھ نہ کہنا بھی خود اپنی ہی زباں ہوتا ہے بے سبب کچھ بھی نہیں ہوتا ہے یا یوں کہیے آگ لگتی ہے کہیں پر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3