بچھڑنے دیتی نہیں ڈھونڈھ ہی نکالتی ہے

بچھڑنے دیتی نہیں ڈھونڈھ ہی نکالتی ہے
عجیب ہے نہ مجھے بے خودی سنبھالتی ہے


میں کب کا ہار چکا زندگی تری بازی
ہوا میں کس لئے سکہ نیا اچھالتی ہے


ہوا ہے شک مری تنہائی کو مجھے لے کر
الٹ پلٹ کے ہر ایک چیز کو کھنگالتی ہے


جھلس نہ دیں کہیں سچائیاں اسے اک دن
وہ خواب آنکھ جسے چھانو چھانو پالتی ہے


دبک گئی ہے کرن جو ابھی دھندھلکے میں
وہی تو صبح کو سورج نیا اجالتی ہے