Akhilesh Tiwari

اکھلیش تیواری

اکھلیش تیواری کی غزل

    وقت کر دے نہ پائمال مجھے

    وقت کر دے نہ پائمال مجھے اب کسی شکل میں تو ڈھال مجھے عقل والوں میں ہے گزر میرا میری دیوانگی سنبھال مجھے میں زمیں بھولتا نہیں ہرگز تو بڑے شوق سے اچھال مجھے تجربے تھے جدا جدا اپنے تم کو دانہ دکھا تھا جال مجھے اور کب تک رہوں معطل سا کر دے ماضی مرے بحال مجھے

    مزید پڑھیے

    فریب کھانا نہیں بار بار چیختا ہے

    فریب کھانا نہیں بار بار چیختا ہے ندی کی تہ سے کوئی ریگزار چیختا ہے بدن کے غار سے بے اختیار چیختا ہے شکار ہونے سے پہلے شکار چیختا ہے تمام دن تو نہیں ٹوٹتا طلسم صدا تمام رات بھی بس انتظار چیختا ہے ادھر نہ جانا ادھر راستے میں منزل ہے سفر کا لطف سر رہ گزار چیختا ہے محاذ جنگ میں ...

    مزید پڑھیے

    کسے جانا کہاں ہے منحصر ہوتا ہے اس پر بھی

    کسے جانا کہاں ہے منحصر ہوتا ہے اس پر بھی بھٹکتا ہے کوئی باہر تو کوئی گھر کے بھیتر بھی کسی کو آس بادل سے کوئی دریاؤں کا طالب اگر ہے تشنہ لب صحرا تو پیاسا ہے سمندر بھی شکستہ خواب کی کرچیں پڑی ہیں آنکھ میں شاید نظر میں چبھتا ہے جب تب ادھورا سا وہ منظر بھی سراغ اس سے ہی لگ جائے مرے ...

    مزید پڑھیے

    گتھی نہ سلجھ پائی گو سلجھائی بہت ہے

    گتھی نہ سلجھ پائی گو سلجھائی بہت ہے جو خوب لٹائی تھی وہ شے پائی بہت ہے پھسلن یہ کناروں پہ یہ ٹھہراؤ ندی کا سب صاف اشارہ ہیں کہ گہرائی بہت ہے ڈرتا ہوں کہیں خود سے نہ ہو جائے ملاقات اس دل کی گزر گاہ میں تنہائی بہت ہے پربت سی حقیقت بھی دلیلوں میں پڑے کم بے پر کی اڑانا ہو تو بس رائی ...

    مزید پڑھیے

    ہنسنا رونا پانا کھونا مرنا جینا پانی پر

    ہنسنا رونا پانا کھونا مرنا جینا پانی پر پڑھیے تو کیا کیا لکھا ہے دریا کی پیشانی پر مہنگائی ہے دام ملیں گے سوچا تھا ہم نے لیکن شرمندہ ہو کر لوٹے ہیں خوابوں کی ارزانی پر اب تک اجڑے پن میں شاید کچھ نظاروں لائق ہے ورنہ جمگھٹ کیوں امڈا رہتا ہے اس ویرانی پر رات جو آنکھوں میں چمکے ...

    مزید پڑھیے

    ہے تو پگڈنڈی نظر میں معتبر الفاظ کی

    ہے تو پگڈنڈی نظر میں معتبر الفاظ کی لے کے جائے گی کہاں تک رہ گزر الفاظ کی اس سے آگے صرف تو ہے اور معانی کا طلسم اب کوئی حکمت نہ ہوگی کارگر الفاظ کی کس گلی میں چھوڑ کر رخصت ہوئی پرچھائیاں میں ہوں اور بے بس صدائیں در بدر الفاظ کی خامشی کے ان ہرے پیڑوں پہ جانے کیا بنی آریاں چلتی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو ڈوب چلے ہم کبھی ابھرتے ہوئے

    کبھی تو ڈوب چلے ہم کبھی ابھرتے ہوئے خود اپنی ذات کے دریا کو پار کرتے ہوئے یہیں سے راہ کوئی آسماں کو جاتی تھی خیال آیا ہمیں سیڑھیاں اترتے ہوئے اگر وو خواب ہے جو آنکھ میں سلامت ہے تو پھر یے کیا ہے جسے دیکھتا ہوں مرتے ہوئے سمٹ کے خود میں مرا خیر کیا بنا ہوتا ہوا کے دوش پہ تھا دور ...

    مزید پڑھیے

    کب تک گھٹ کر جیتے رہتے سچائی کے مارے خواب

    کب تک گھٹ کر جیتے رہتے سچائی کے مارے خواب پلکوں کی دہلیز سے باہر نکلے پھر بنجارے خواب فطرت سے ہی آوارہ ہیں کب ٹھہرے جو ٹھہریں گے کیسے پلکوں پر اٹکے ہیں کچھ خوش رنگ تمہارے خواب اب مولیٰ ہی جانے ان میں اپنا کون پرایا کون ہنس ہنس کر ہر شب ملتے ہیں یوں تو اتنے سارے خواب جیون کی اس ...

    مزید پڑھیے

    جن سے ڈرتے تھے مراسم ان حدوں تک آ گئے

    جن سے ڈرتے تھے مراسم ان حدوں تک آ گئے آپ سے پھر رفتہ رفتہ خود سے ہم اکتا گئے ریت پر کچھ دور تک دیکھے تھے ہم نے صاف صاف پھر غبار اٹھا کوئی وہ نقش بھی دھندھلا گئے خودکشی سورج نے کر لی یہ بتانے کے لیے کالے رنگوں کے پرندے آسماں پر چھا گئے چند جگنو ہیں یہاں پر اور مسلسل تیرگی صاحبو ہم ...

    مزید پڑھیے

    نہ دھوپ دھوپ رہے اور نہ سایا سایا تو

    نہ دھوپ دھوپ رہے اور نہ سایا سایا تو جنون شوق اگر پھر وہیں پہ لایا تو قدم بڑھا تو لوں آبادیوں کی سمت مگر مجھے وہ ڈھونڈھتا تنہائیوں میں آیا تو سلوک خود سے حریفانہ کون چاہے گا اگرچہ تو نے مجھے زندگی نبھایا تو میں جس کی اوٹ میں موسم کی مار سہتا ہوں کہیں کھنڈر بھی وہ بارش نے اب کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3