روشنی کے نہ تھے آثار بند کمرے میں

روشنی کے نہ تھے آثار بند کمرے میں
وہ تو لو دے اٹھا کردار بند کمرے میں


ہے گزر اپنا ہی مشکل تو پھر تعجب ہے
کس طرح آ گیا بازار بند کمرے میں


شعر جتنے کہے خارج کیے سوا اس سے
صرف پرزوں کا ہے انبار بند کمرے میں


چاند تاروں سے الگ ایک اور دنیا ہے
بانچتا تھا کوئی اخبار بند کمرے میں


تجربہ خوب ہے اس پر عمل بھی کرنا ہے
رہنا ہے خود سے ہی ہشیار بند کمرے میں


جوڑ کر رکھتا تھا دنیا سے جو وہ ہی احساس
اب پڑا رہتا ہے بیمار بند کمرے میں


سچ اگر جھوٹ کو تسلیم کر بھی لوں تو انا
روٹھ کر کرتی ہے تکرار بند کمرے میں