Akhilesh Tiwari

اکھلیش تیواری

اکھلیش تیواری کی غزل

    جسم کے غار کے دہانے پر

    جسم کے غار کے دہانے پر وہ ہی کردار تھا نشانے پر کیا مقابل تھی اب کے بھی دیوار کوئی بولا نہیں بلانے پر اک معانی نے اور دم توڑا عین الفاظ کے مہانے پر سائباں کے تلے کہاں رہتی دھوپ جا بیٹھی شامیانے پر وہ بھی ایمان تک چلا آیا آ گئے ہم بھی مسکرانے پر شور تنہائیاں بھی کرتی ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    گھر کو بھی گھر کر نہ پائے اور نہ ویرانی ملی

    گھر کو بھی گھر کر نہ پائے اور نہ ویرانی ملی بس یہی مشکل تھی اپنی صرف آسانی ملی منتظر کتنے خدا تھے ہر طرف اب کیا کہیں جب کے سجدوں کے لیے بس ایک پیشانی ملی اس گلی سے آج مدت بعد جانا پھر ہوا آج بھی حیرت سے تکتی ہم کو حیرانی ملی اجنبی اس بھیڑ میں تنہائی بھی آئی نظر دل کو کچھ تسکیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ شکل وہ شناخت وہ پیکر کی آرزو

    وہ شکل وہ شناخت وہ پیکر کی آرزو پتھر کی ہو کے رہ گئی پتھر کی آرزو چھت ہو فلک تو خاک اڑانے کو پاؤں میں صحرا میں کھینچتی ہے ہمیں گھر کی آرزو زخمی کئے ہیں پاؤں کبھی لائی راہ پر کب کون جان پایا ہے ٹھوکر کی آرزو اپنی گرفت میں لئے اڑتا پھرے کہیں پرواز کو ہے کب سے اسی پر کی آرزو رہتی ...

    مزید پڑھیے

    کاغذ پہ حرف حرف نکھر جانا چاہئے

    کاغذ پہ حرف حرف نکھر جانا چاہئے بے چہرگی کو رنگ میں بھر جانا چاہئے ممکن ہے آسمان کا رستہ انہیں سے ہو نیلے سمندروں میں اتر جانا چاہئے ہر دم بدن کی قید کا رونا فضول ہے موسم صدائیں دے تو بکھر جانا چاہئے صحرا میں کون بھیک کسے دے گا چھاؤں کی خود اپنی اوٹ میں ہی ٹھہر جانا چاہئے تنہا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3