ایک وہی معمول نبھانا ہوگا پھر

ایک وہی معمول نبھانا ہوگا پھر
خود کو کھو کر خود کو پانا ہوگا پھر


راہ گزر تنہائی کی ہے دھیان رہے
رستے میں ہی ایک زمانہ ہوگا پھر


راہ بھٹک جاؤ اب کے یہ ممکن ہے
پر اس جنگل میں سے جانا ہوگا پھر


جن کی آسانی ہی جن کی مشکل ہے
ان لفظوں کو ہی دہرانا ہوگا پھر


وہ پھل دار درخت گرایا آندھی نے
ان کا اب کس اور نشانہ ہوگا پھر


آج تو اس سے میری راتیں روشن ہیں
کل کو جب یہ زخم پرانا ہوگا پھر


کب سوچا تھا چپی بولے گی ایسے
آوازوں سے یوں ویرانہ ہوگا پھر


صحرا میں جو خاک اڑی ہے بے موسم
دیکھو تو وہ ہی دیوانہ ہوگا پھر