جوڑ کر رکھی ہوئی سب پائی پائی لے اڑی

جوڑ کر رکھی ہوئی سب پائی پائی لے اڑی
دنیا احساسات کی گاڑھی کمائی لے اڑی


مطمئن تھے راز دل ہم میں کہیں محفوظ ہے
اس کو بھی تنہائی کی پر آوا جائی لے اڑی


ایک صدا آئی قفس کے پار بھی کوئی جال ہے
آشیاں کی اور جب ہم کو رہائی لے اڑی


سچ کی عریانی پہنتی کیوں قبا تحریر کی
چھین لی مجھ سے قلم پھر روشنائی لے اڑی


ابر کا ٹکڑا میرے ہم راہ کتنی دور تک
چیل سی کوئی ہوا کی موج آئی لے اڑی


لڑکھڑاتے پاؤں تھے پر تھے تو منزل کی طرف
راستہ ہی رہبروں کی رہنمائی لے اڑی


ہم سے آوارہ مزاجوں کی کوئی منزل کہاں
آپ کو بھی آپ کی ہی پارسائی لے اڑی


ڈھونڈتے ہو اب کہاں اکھلیشؔ وہ سائے گھنے
برگدوں کی شخصیت تو بونسائی لے اڑی