Akhilesh Tiwari

اکھلیش تیواری

اکھلیش تیواری کے تمام مواد

24 غزل (Ghazal)

    اڑا کے پھر وہی گرد و غبار پہلے سا

    اڑا کے پھر وہی گرد و غبار پہلے سا بلا رہا ہے سفر بار بار پہلے سا وہ ایک دھند تھی آخر کو چھٹ ہی جانا تھی دکھائی دینے لگا آر پار پہلے سا ندی نے راہ سمندر کی پھر وہی پکڑی صدائیں دیتا رہا ریگزار پہلے سا کہیں ڈھلان مقدر نہ ہو بلندی کا چڑھائی پھر نہ ہو اپنا اتار پہلے سا سوال کیوں نہ ...

    مزید پڑھیے

    جوڑ کر رکھی ہوئی سب پائی پائی لے اڑی

    جوڑ کر رکھی ہوئی سب پائی پائی لے اڑی دنیا احساسات کی گاڑھی کمائی لے اڑی مطمئن تھے راز دل ہم میں کہیں محفوظ ہے اس کو بھی تنہائی کی پر آوا جائی لے اڑی ایک صدا آئی قفس کے پار بھی کوئی جال ہے آشیاں کی اور جب ہم کو رہائی لے اڑی سچ کی عریانی پہنتی کیوں قبا تحریر کی چھین لی مجھ سے قلم ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑنے دیتی نہیں ڈھونڈھ ہی نکالتی ہے

    بچھڑنے دیتی نہیں ڈھونڈھ ہی نکالتی ہے عجیب ہے نہ مجھے بے خودی سنبھالتی ہے میں کب کا ہار چکا زندگی تری بازی ہوا میں کس لئے سکہ نیا اچھالتی ہے ہوا ہے شک مری تنہائی کو مجھے لے کر الٹ پلٹ کے ہر ایک چیز کو کھنگالتی ہے جھلس نہ دیں کہیں سچائیاں اسے اک دن وہ خواب آنکھ جسے چھانو چھانو ...

    مزید پڑھیے

    ایک وہی معمول نبھانا ہوگا پھر

    ایک وہی معمول نبھانا ہوگا پھر خود کو کھو کر خود کو پانا ہوگا پھر راہ گزر تنہائی کی ہے دھیان رہے رستے میں ہی ایک زمانہ ہوگا پھر راہ بھٹک جاؤ اب کے یہ ممکن ہے پر اس جنگل میں سے جانا ہوگا پھر جن کی آسانی ہی جن کی مشکل ہے ان لفظوں کو ہی دہرانا ہوگا پھر وہ پھل دار درخت گرایا آندھی ...

    مزید پڑھیے

    ندی کا کیا ہے جدھر چاہے اس ڈگر جائے

    ندی کا کیا ہے جدھر چاہے اس ڈگر جائے مگر یہ پیاس مجھے چھوڑ دے تو مر جائے کبھی تو دل یہی اکسائے خامشی کے خلاف لبوں کا کھلنا ہی اس کو کبھی اکھر جائے کبھی تو چل پڑے منزل ہی راستے کی طرح کبھی یہ راہ بھی چل چل کے پھر ٹھہر جائے کوئی تو بات ہے پچھلے پہر میں راتوں کے یہ بند کمرہ عجب روشنی ...

    مزید پڑھیے

تمام