اجے سحاب کی غزل

    لگا کے دھڑکن میں آگ میری برنگ رقص شرر گیا وہ

    لگا کے دھڑکن میں آگ میری برنگ رقص شرر گیا وہ مجھے بنا کے سلگتا صحرا مرے جہاں سے گزر گیا وہ یوں نیند سے کیوں مجھے جگا کر چراغ امید پھر جلا کر ہوئی سحر تو اسے بجھا کر ہوا کے جیسا گزر گیا وہ وہ ریت پر اک نشان جیسا تھا موم کے اک مکان جیسا بڑا سنبھل کر چھوا تھا میں نے پہ ایک پل میں بکھر ...

    مزید پڑھیے

    میرے اندر جو اک فقیری ہے

    میرے اندر جو اک فقیری ہے یہ ہی سب سے بڑی امیری ہے کچھ نہیں ہے مگر سبھی کچھ ہے دیکھ کیسی جہان گیری ہے پنکھڑی اک گلاب کے جیسی میرے شعروں میں ایسی میری ہے شعر کہتا ہے بیچ دیتا ہے تجھ میں کیسی یہ لا ضمیری ہے تجھ سے رشتہ کبھی نہیں سلجھا اس کی فطرت ہی کاشمیری ہے روح اور جسم سرخ ہیں ...

    مزید پڑھیے

    میرے زخموں مری رسوائی کو واپس لے لے

    میرے زخموں مری رسوائی کو واپس لے لے اس سلگتی ہوئی تنہائی کو واپس لے لے علم آئے نہ اگر کام کسی مفلس کے آ کے مجھ سے مری دانائی کو واپس لے لے یا تو سچ کہنے پہ سقراط کو مارے نہ کوئی یا تو سنسار سے سچائی کو واپس لے لے چیخ اٹھے ہیں مرے گھر کے یہ خالی برتن اب تو بازار سے مہنگائی کو واپس ...

    مزید پڑھیے

    اشکوں سے کب مٹے ہیں دامن کے داغ یارو

    اشکوں سے کب مٹے ہیں دامن کے داغ یارو ایسے نہیں بجھیں گے غم کے چراغ یارو ہر آدمی کے قد سے اس کی قبا بڑی ہے سورج پہن کے نکلے دھندلے چراغ یارو ان میں خیال نو کے کیسے اگیں گے پودے بنجر ہیں مذہبوں سے جن کے دماغ یارو روز ازل سے انساں ہے کھوج میں خدا کی کس کو ملا ہے لیکن اس کا سراغ ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو پھول تھے تری یاد کے تہہ دست خار چلے گئے

    وہ جو پھول تھے تری یاد کے تہہ دست خار چلے گئے ترے شہر میں بھی سکون ہے ترے بے قرار چلے گئے نہ وہ اشک اب نہ وہ آبلے نہ وہ چیختی ہوئی دھڑکنیں مری ذات سے ترے درد کے سبھی اشتہار چلے گئے نہ وہ یاد ہے نہ وہ ہجر ہے نہ نگاہ ناز کا ذکر ہے مرے ذہن سے تری فکر کے سبھی روزگار چلے گئے تھے وہ ...

    مزید پڑھیے

    بھول پائے نہ تجھے آج بھی رونے والے

    بھول پائے نہ تجھے آج بھی رونے والے تو کہاں ہے مری آنکھوں کو بھگونے والے ہم کسی غیر کے ہو جائیں یہ ممکن ہی نہیں اور تم تو کبھی اپنے نہیں ہونے والے سوچتے ہیں کہ کہاں جا کے تلاشیں ان کو ہم کو کچھ دوست ملے تھے کبھی کھونے والے ریت کے جیسا ہے اب تو یہ مقدر میرا خود بکھر جائیں گے اب مجھ ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی ہر بات پہ ہنسنے کا بہانہ آئے

    یوں ہی ہر بات پہ ہنسنے کا بہانہ آئے پھر وہ معصوم سا بچپن کا زمانہ آئے کاش لوٹیں مرے پاپا بھی کھلونے لے کر کاش پھر سے مرے ہاتھوں میں خزانہ آئے کاش دنیا کی بھی فطرت ہو مری ماں جیسی جب میں بن بات کے روٹھوں تو منانا آئے ہم کو قدرت ہی سکھا دیتی ہے کتنی باتیں کاش استادوں کو قدرت سا ...

    مزید پڑھیے

    سب ہے فانی یہاں سنسار میں کس کا کیا ہے

    سب ہے فانی یہاں سنسار میں کس کا کیا ہے فکر پھر بھی ہے تجھے اپنا پرایا کیا ہے آپ کا پہلا ہی انداز بتا دیتا ہے آپ کو آپ کے والد نے سکھایا کیا ہے زندگی خود پہ تو اتنا بھی گماں مت کرنا چند سانسوں کے سوا تیرا اثاثہ کیا ہے پھر سے اک اور لڑائی کے بہانے کے سوا تم بتا دو کہ کسی جنگ سے ملتا ...

    مزید پڑھیے

    وہ ماہتاب بھی خوشبو سے بھر گیا ہوگا

    وہ ماہتاب بھی خوشبو سے بھر گیا ہوگا جو چاندنی نے تری زلف کو چھوا ہوگا ترے لبوں سے جو نکلا تھا اک تبسم سا مرے لیے تو وہی گیت بن گیا ہوگا لکھا ہے آج ترا نام میں نے کاغذ پر یہ میرا لفظ بھی اترا کے چل رہا ہوگا مری پلک پہ ہے احساس جیسے مخمل سا تمہارا خواب اسے چھو کے چل دیا ہوگا مجھے ...

    مزید پڑھیے

    فن جو معیار تک نہیں پہنچا

    فن جو معیار تک نہیں پہنچا اپنے شہکار تک نہیں پہنچا پگڑی پیروں میں کیسے میں رکھتا ہاتھ دستار تک نہیں پہنچا کوئی انعام کوئی بھی تمغہ سچے حق دار تک نہیں پہنچا ایسا ہر شخص ہے مسیحا اب جو کبھی دار تک نہیں پہنچا ہر خدا جنتوں میں ہے محدود کوئی سنسار تک نہیں پہنچا چارہ گر سب کے پاس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3