لگا کے دھڑکن میں آگ میری برنگ رقص شرر گیا وہ
لگا کے دھڑکن میں آگ میری برنگ رقص شرر گیا وہ مجھے بنا کے سلگتا صحرا مرے جہاں سے گزر گیا وہ یوں نیند سے کیوں مجھے جگا کر چراغ امید پھر جلا کر ہوئی سحر تو اسے بجھا کر ہوا کے جیسا گزر گیا وہ وہ ریت پر اک نشان جیسا تھا موم کے اک مکان جیسا بڑا سنبھل کر چھوا تھا میں نے پہ ایک پل میں بکھر ...