اجے سحاب کی غزل

    اک بند ہو گیا ہے تو کھولیں گے باب اور

    اک بند ہو گیا ہے تو کھولیں گے باب اور ابھریں گے اپنی رات سے سو آفتاب اور روح بشر غلام ہے کوئی بھی ہو نظام اب بھی جہاں کو چاہئے کچھ انقلاب اور جب بھی بڑھی ہے تشنگی ملک‌ و عوام کی چھلکی ہے قصر شاہ میں تھوڑی شراب اور اخلاق کی نقاب میں لے کر ولی کا ڈھونگ نوچیں‌ گے میری لاش کو کتنے ...

    مزید پڑھیے

    تنہائیوں میں اشک بہانے سے کیا ملا

    تنہائیوں میں اشک بہانے سے کیا ملا خود کو دیا بنا کے جلانے سے کیا ملا مجھ سے بچھڑ کے ریت سا وہ بھی بکھر گیا اس جانے والے شخص کو جانے سے کیا ملا اب بھی مرے وجود میں ہر سانس میں وہی میں سوچتا ہوں اس کو بھلانے سے کیا ملا تو کیا گیا کہ دل مرا خاموش ہو گیا ان دھڑکنوں کے شور مچانے سے کیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3