میرے زخموں مری رسوائی کو واپس لے لے
میرے زخموں مری رسوائی کو واپس لے لے
اس سلگتی ہوئی تنہائی کو واپس لے لے
علم آئے نہ اگر کام کسی مفلس کے
آ کے مجھ سے مری دانائی کو واپس لے لے
یا تو سچ کہنے پہ سقراط کو مارے نہ کوئی
یا تو سنسار سے سچائی کو واپس لے لے
چیخ اٹھے ہیں مرے گھر کے یہ خالی برتن
اب تو بازار سے مہنگائی کو واپس لے لے
یا تو ہر سمت یہ دہشت کے نظارے نہ دکھا
یا مری آنکھوں سے بینائی کو واپس لے لے
یا تو انسان کے ہر زخم کو بھر دے مولا
یا تو دنیا سے مسیحائی کو واپس لے لے
شاہد جرم ہو پھر بھی نہ لہو کھول اٹھے
ایسے خاموش تماشائی کو واپس لے لے
بزم باطل میں بھی ہمت رہے حق گوئی کی
یا مری طاقت گویائی کو واپس لے لے