وہ ماہتاب بھی خوشبو سے بھر گیا ہوگا

وہ ماہتاب بھی خوشبو سے بھر گیا ہوگا
جو چاندنی نے تری زلف کو چھوا ہوگا


ترے لبوں سے جو نکلا تھا اک تبسم سا
مرے لیے تو وہی گیت بن گیا ہوگا


لکھا ہے آج ترا نام میں نے کاغذ پر
یہ میرا لفظ بھی اترا کے چل رہا ہوگا


مری پلک پہ ہے احساس جیسے مخمل سا
تمہارا خواب اسے چھو کے چل دیا ہوگا


مجھے یقین ہے تیرے ہی سرخ گالوں نے
دھنک کو شوخ سا یہ رنگ دے دیا ہوگا


جو دیکھتا ہے ترا حسن روز چھپ چھپ کر
اس آئنے کو بھی تو عشق ہو گیا ہوگا