سب ہے فانی یہاں سنسار میں کس کا کیا ہے
سب ہے فانی یہاں سنسار میں کس کا کیا ہے
فکر پھر بھی ہے تجھے اپنا پرایا کیا ہے
آپ کا پہلا ہی انداز بتا دیتا ہے
آپ کو آپ کے والد نے سکھایا کیا ہے
زندگی خود پہ تو اتنا بھی گماں مت کرنا
چند سانسوں کے سوا تیرا اثاثہ کیا ہے
پھر سے اک اور لڑائی کے بہانے کے سوا
تم بتا دو کہ کسی جنگ سے ملتا کیا ہے
عمر بھر کچھ نہ کیا جس کی تمنا کے سوا
اس نے پوچھا بھی نہیں میری تمنا کیا ہے
کچھ غریبوں کی گلی میں بھی دیے جل جائیں
اس سے بہتر بھی دوالی کا اجالا کیا ہے
کوئی جذبہ کوئی احساس نہ دھڑکن ہے کوئی
یہ اگر دل ہے مرے دوست تو صحرا کیا ہے
دام من مانے اسے دے کے خریدا تو نے
دیکھ تو لے تجھے بازار نے بیچا کیا ہے
وہی بھوکے وہی آہیں وہی آنسو ہیں سحابؔ
شہر کا نام بدل جانے سے بدلا کیا ہے