Ahmad Soz

احمد سوز

احمد سوز کی غزل

    میں جان گیا ہوں وہ مرا غم نہ کرے گا

    میں جان گیا ہوں وہ مرا غم نہ کرے گا اچھا ہے مرے بعد وہ ماتم نہ کرے گا کیا کوئی کرے گا مرے زخموں کا مداوا جب میرا لہو خود مجھے مرہم نہ کرے گا جادو اسے آتا ہے یہ معلوم ہے سب کو جادو سے کسی شے کو وہ درہم نہ کرے گا اب شیخ سے امید مروت کی نہ رکھنا نذرانہ نہیں دو گے تو وہ دم نہ کرے ...

    مزید پڑھیے

    میرا دکھ بھی کبھی سنے گا کیا

    میرا دکھ بھی کبھی سنے گا کیا بات مجھ سے بھی وہ کرے گا کیا آج کا دن مجھے قیامت ہے اور یہ دن کبھی ڈھلے گا کیا ہو چکا ہوں میں جل کے راکھ یہاں راکھ کا ڈھیر پھر جلے گا کیا اب بھی انگلی پکڑ کے وہ میری سوچتا رہتا ہوں چلے گا کیا سامنے میرے کل جو بیٹھا تھا وہ دوبارہ کبھی ملے گا کیا مدتوں ...

    مزید پڑھیے

    لفظوں کے بت ٹوٹ چکے ہیں (ردیف .. ے)

    لفظوں کے بت ٹوٹ چکے ہیں کورا کاغذ پڑا ہوا ہے گدھ نے کب زندوں کو نوچا شیر نے کب مردوں کو چھوا ہے اپنی اپنی بین سنبھالو سنا ہے شہر میں ناگ آیا ہے گونگے بول رہے ہیں پتھر سناٹا ریزہ ریزہ ہے گھر کا کنواں بھی بے مصرف سا ساگر میں تیزاب بھرا ہے سونپ گئی ہے خود کو مجھے وہ ہرا بھرا دن ...

    مزید پڑھیے

    اب بھی آئے ہے وہ گلی میری

    اب بھی آئے ہے وہ گلی میری اس کو ہونا ہے آج بھی میری جانتی ہے وہ میری اک اک بات اس نے پڑھ لی ہے ڈایری میری تیز رفتار ہو گیا ہوں میں آگے چلنے لگی گھڑی میری سونے چاندی کے ایک پنجرے میں قید ہے آج کل پری میری خواہشوں کا غلام ہوں میں بھی کام آئی نہ آگہی میری آپ تو بات میری سن ...

    مزید پڑھیے

    لفظ میں تصویر میں پتھر میں قید

    لفظ میں تصویر میں پتھر میں قید سب نے اس کو کر دیا منظر میں قید دل تو بیچارہ یوں ہی بدنام ہے جو بھی ہے وہ سب کا سب ہے سر میں قید صرف اچھا ہونا ہی سب کچھ نہیں قدر ہے انسان کی اب زر میں قید آج کا دن شر پسندوں کا ہے پھر شہر سارا ہو گیا ہے گھر میں قید آسماں کی وسعتیں کروا مجھے اور کب تک ...

    مزید پڑھیے

    نئے منظر کی جستجو بھی کروں

    نئے منظر کی جستجو بھی کروں میں اسے اپنے روبرو بھی کروں سب سے امید بھی رکھوں اچھی اور ایک ایک کو عدو بھی کروں حسن اس کا مجھے عبادت سا اپنی آنکھیں ذرا وضو بھی کروں اس کے دل کو پسیجنا ہے مجھے اپنے آنسو کبھی لہو بھی کروں ساری مخلوق ستر‌ پوش نہیں حسن کو رشک آبرو بھی کروں لے لوں ...

    مزید پڑھیے

    وہ ہے بھگوان وہ پتھر میں نہیں رہ سکتا

    وہ ہے بھگوان وہ پتھر میں نہیں رہ سکتا وہ کسی اور کے پیکر میں نہیں رہ سکتا دھرتی آکاش سمے کچھ بھی نہیں اس کے لیے وہ کسی وقت مقرر میں نہیں رہ سکتا وہ ہے لا انتہا محبوس نہیں ہوگا وہ عکس اس کا کسی منظر میں نہیں رہ سکتا دن کا راجا ہوں اجالا ہے سنگھاسن میرا میرا دم گھٹتا ہے میں گھر میں ...

    مزید پڑھیے

    علم بھی آزار لگتا ہے مجھے

    علم بھی آزار لگتا ہے مجھے آدمی اخبار لگتا ہے مجھے چیختی سڑکیں دھواں پٹرول بو شہر تو بیمار لگتا ہے مجھے اس قدر محفوظ رہتا ہے کہ وہ رام کا اوتار لگتا ہے مجھے روز نظمیں کہنا چھپوانا کہیں ایک کاروبار لگتا ہے مجھے شاعری اچھی بری معلوم ہے باقی سب بے کار لگتا ہے مجھے

    مزید پڑھیے