میرا دکھ بھی کبھی سنے گا کیا

میرا دکھ بھی کبھی سنے گا کیا
بات مجھ سے بھی وہ کرے گا کیا


آج کا دن مجھے قیامت ہے
اور یہ دن کبھی ڈھلے گا کیا


ہو چکا ہوں میں جل کے راکھ یہاں
راکھ کا ڈھیر پھر جلے گا کیا


اب بھی انگلی پکڑ کے وہ میری
سوچتا رہتا ہوں چلے گا کیا


سامنے میرے کل جو بیٹھا تھا
وہ دوبارہ کبھی ملے گا کیا


مدتوں سے ہے قید پنجرے میں
اب اڑا دوں تو وہ اڑے گا کیا


اس طرف سوزؔ ہے مرا سب کچھ
اس طرف دل مرا لگے گا کیا