لفظ میں تصویر میں پتھر میں قید

لفظ میں تصویر میں پتھر میں قید
سب نے اس کو کر دیا منظر میں قید


دل تو بیچارہ یوں ہی بدنام ہے
جو بھی ہے وہ سب کا سب ہے سر میں قید


صرف اچھا ہونا ہی سب کچھ نہیں
قدر ہے انسان کی اب زر میں قید


آج کا دن شر پسندوں کا ہے پھر
شہر سارا ہو گیا ہے گھر میں قید


آسماں کی وسعتیں کروا مجھے
اور کب تک میں رہوں پیکر میں قید


میرے شعروں میں بھی ہیں تہہ داریاں
جیسے خوشبو رہتی ہے عنبر میں قید