نئے منظر کی جستجو بھی کروں

نئے منظر کی جستجو بھی کروں
میں اسے اپنے روبرو بھی کروں


سب سے امید بھی رکھوں اچھی
اور ایک ایک کو عدو بھی کروں


حسن اس کا مجھے عبادت سا
اپنی آنکھیں ذرا وضو بھی کروں


اس کے دل کو پسیجنا ہے مجھے
اپنے آنسو کبھی لہو بھی کروں


ساری مخلوق ستر‌ پوش نہیں
حسن کو رشک آبرو بھی کروں


لے لوں پھولوں سے حسن کی دولت
اپنی غزلوں کو رنگ و بو بھی کروں