بھٹکتے پھرتے ہیں شہر وفا سے نکلے ہوئے

بھٹکتے پھرتے ہیں شہر وفا سے نکلے ہوئے
بہت ملول ہیں کوئے وفا سے نکلے ہوئے


طلسم آب ثبات گلاب عکس چراغ
تمام رنگ ہیں تیری قبا سے نکلے ہوئے


بلائیں پھرتی ہیں خالی مکان میں شاید
پڑے ہیں دور دریچے ہوا سے نکلے ہوئے


نوا میں کرب وہی دل کی وحشتیں بھی وہی
گو ایک عمر ہوئی ہے بلا سے نکلے ہوئے


اب انتظار یہی ہے کہ راکھ اڑ جائے
جھلس جھلس گئے شعلے نوا سے نکلے ہوئے