اب نہ صحرا ہے نہ دریا باقی احمد عظیم 07 ستمبر 2020 شیئر کریں اب نہ صحرا ہے نہ دریا باقی رہ گئی چشم تماشا باقی ان ہواؤں نے نہ چھوڑا اب کے شاخ پر ایک بھی پتا باقی چھن گیا زعم گل افشانیٔ لب رہ گیا ہونٹ پہ نوحہ باقی لوٹ جانے کے لیے دشت امید اب رہا کوئی نہ رستہ باقی