ہونٹوں پہ تبسم کا لبادہ تو نہیں تھا
ہونٹوں پہ تبسم کا لبادہ تو نہیں تھا
اے دل سم اندوہ زیادہ تو نہیں تھا
اک رنج تمنا سے بہت سرخ تھیں آنکھیں
صد شکر خدا نشۂ بادہ تو نہیں تھا
آئے تھے ترے پاس گھڑی بھر کے لیے ہم
تا عمر ٹھہرنے کا ارادہ تو نہیں تھا
آسان تو پہلے بھی نہیں تھی یہ رہ دل
مشکل بھی مگر اتنا یہ جادہ تو نہیں تھا
تحریر تھے خواب اور تمنا کے حوالے
اتنا ورق دل کوئی سادہ تو نہیں تھا