خلاف تھا نہ زمانہ نہ وقت ایسا تھا
خلاف تھا نہ زمانہ نہ وقت ایسا تھا
جو سوچیے تو یہی ہے نا بخت ایسا تھا
بہار رت میں بھی شاخوں کے ہاتھ خالی تھے
کھلے نہ پھول کہ موسم ہی سخت ایسا تھا
دئے ہیں زخم کچھ ایسے کہ بھر سکیں نہ کبھی
یہ اور بات کہ وہ گل بدست ایسا تھا
شعاع مہر ہی آئی نہ چاندنی اتری
میں کیا کہوں کہ مرے دل کا دشت ایسا تھا
فضائے شام کی رنگین کر گیا ہے قبا
غروب مہر گلابوں کے طشت ایسا تھا
کوئی چراغ دریچوں پہ رکھ کے کیا کرتا
ہر ایک سمت ہواؤں کا گشت ایسا تھا
وہ چاندنی تو نہ تھی چاندنی کے ٹکڑے تھے
کہ ماہتاب مرا لخت لخت ایسا تھا
کسی سفر میں بھی بوجھل ہوئے نہ میرے قدم
کہیں بھی بیٹھ گیا ساز و رخت ایسا تھا
پلٹ کے آئے نہ پھر کاروان اہل وفا
محبتوں کی مسافت کا دشت ایسا تھا
امان بانٹ رہا تھا مسافروں میں عظیمؔ
گھنیری چھاؤں لٹاتا درخت ایسا تھا