اگا ویرانیوں کا اک شجر آہستہ آہستہ

اگا ویرانیوں کا اک شجر آہستہ آہستہ
شکستہ ہو گئے دیوار و در آہستہ آہستہ


کہاں جاتا ہے یہ سیل روان عمر گم گشتہ
بہے جاتے ہیں روز و شب کدھر آہستہ آہستہ


مرے دل کے خرابے کو کبھی آباد کر ایسے
مری جاں کے بیاباں سے گزر آہستہ آہستہ


ہوئے ہم دونوں خاکستر دھواں اٹھا نہ آنچ آئی
ہوئی کیونکر زمانے کو خبر آہستہ آہستہ