Aftab Ahmad Shah

آفتاب احمد شاہ

  • 1947

آفتاب احمد شاہ کی غزل

    بہتر نہیں رہا کبھی کمتر نہیں رہا

    بہتر نہیں رہا کبھی کمتر نہیں رہا میں زیست میں کسی کے برابر نہیں رہا دشت فراق دھوپ غضب کی سفر نصیب سایہ بھی اس کی یاد کا سر پر نہیں رہا اس عہد سخت گیر میں یہ چھوٹ ہے بہت باہر پھرا ہے تو کبھی اندر نہیں رہا آزاد ہو گیا ہوں حکومت کی قید سے اس ملک میں مرا کوئی دفتر نہیں رہا میں ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ستم کو رحم دھوکے کو بھروسہ پڑھ نہیں سکتا

    ستم کو رحم دھوکے کو بھروسہ پڑھ نہیں سکتا برے کو میں برا کہتا ہوں اچھا پڑھ نہیں سکتا کمی شاید میری کچھ تربیت میں رہ گئی ہوگی کہ شب کی تیرگی کو میں اجالا پڑھ نہیں سکتا نظر نزدیک کی میری بہت کمزور ہے شاید اسی خاطر تو میں چہروں کو پورا پڑھ نہیں سکتا بہت کچھ پڑھ بھی سکتا ہوں پڑھائے ...

    مزید پڑھیے

    جیون کا یہ کھیل تماشا یوں ہی چلتا رہتا ہے

    جیون کا یہ کھیل تماشا یوں ہی چلتا رہتا ہے دن پھرتے ہیں لوگوں میں اور وقت بدلتا رہتا ہے یاروں سے ہم وقت بلا میں آنکھیں پھیر تو لیتے ہیں لیکن اک انجانا سا دکھ دل میں پلتا رہتا ہے نظریں خیرہ کر دیتی ہے ایک جھلک لیلاؤں کی اور پھر انساں پورا جیون آنکھیں ملتا رہتا ہے مفت کا روگ نہ ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو منظر کے صلے میں وہ صدا بھیجتا ہے

    مجھ کو منظر کے صلے میں وہ صدا بھیجتا ہے خوب وہ قرض مرا کر کے ادا بھیجتا ہے سر پرستی بھی وہ کرتا ہے زبردستی سے درد کرتا ہے عطا اور دوا بھیجتا ہے میرے دشمن کی ہے تلوار مری گردن پر اور تو ہے کہ مجھے حرف دعا بھیجتا ہے سانپ جب جھوٹ کے دنیا میں بہت ہو جائیں دست موسیٰ میں خدا سچ کا عصا ...

    مزید پڑھیے

    یہ چپ سے خوب صورت لوگ اکثر

    یہ چپ سے خوب صورت لوگ اکثر کہ دے جاتے ہیں دل کا روگ اکثر زمیں پر کیوں ملن ہونے نہ پایا اگر اوپر ہوئے سنجوگ اکثر ہمارا ہاتھ یوں اس نے بٹایا چگی اس نے ہماری چوگ اکثر وہ جن کو موت کی پروا نہیں ہے انہیں ملتا ہے جیون جوگ اکثر یہ کیسی زندگی تھی جینے والو منایا ہم نے جس کا سوگ اکثر

    مزید پڑھیے

    مرا زاد قیامت کچھ نہیں ہے

    مرا زاد قیامت کچھ نہیں ہے بجز اشک ندامت کچھ نہیں ہے کوئی تو پھول پھینکے میری جانب کہ یہ سنگ ملامت کچھ نہیں ہے زمانہ آ گیا ہے کچھ نیا سا بزرگی اور قدامت کچھ نہیں ہے بہت ہوں گے ابھی آثار ظاہر مرض کی اک علامت کچھ نہیں ہے مقابل آفتاب احمدؔ بہت ہیں ترا تو قد و قامت کچھ نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    لوگ اٹھ جائیں گے ان کے تذکرے رہ جائیں گے

    لوگ اٹھ جائیں گے ان کے تذکرے رہ جائیں گے اب یہاں انسانیت کے مقبرے رہ جائیں گے ہونٹ سی دے گا تو ہاتھوں کو زباں مل جائے گی ضابطے تیرے سبھی کے سب دھرے رہ جائیں گے گر تری مردم شناسی کی یہی حالت رہی تیرے چاروں اور سارے مسخرے رہ جائیں گے شہر والوں کو امیر شہر جل دے جائے گا دل میں نفرت ...

    مزید پڑھیے

    خزاں کا دکھ بھی نہیں جشن رنگ و بو بھی نہیں

    خزاں کا دکھ بھی نہیں جشن رنگ و بو بھی نہیں میں تیرہ بخت نہیں ہوں تو سرخ رو بھی نہیں وہ پاس تھا تو کسی ماسوا کا ذکر نہ تھا وہ جا چکا ہے تو اب اس کی گفتگو بھی نہیں یہ کس مقام پہ پہنچا دیا زمانے نے غم زماں بھی نہیں عزم جستجو بھی نہیں مرے نصیب میں کتنے عجیب رہبر تھے امامتیں بھی ...

    مزید پڑھیے

    ایک عرصے کی مشقت رائیگاں ہونے کو ہے

    ایک عرصے کی مشقت رائیگاں ہونے کو ہے پھر کوئی سازش ہمارے درمیاں ہونے کو ہے یا سرک جانے کو ہے پیروں کے نیچے سے زمیں یا ہمارے سر سے رخصت آسماں ہونے کو ہے ٹوٹنے والا ہے اب کے بے نیازی کا طلسم وہ خفا ہونے کو ہے یا مہرباں ہونے کو ہے دامن دل سے لپٹ کے رہ گئی ہے زندگی یہ گلے کا طوق ہے اب ...

    مزید پڑھیے

    تو نے کوئی بات میری آج تک مانی نہیں

    تو نے کوئی بات میری آج تک مانی نہیں تیری جانب سے مجھے کوئی پریشانی نہیں دل میں داخل ہے ہجوم خد و خال دو جہاں اس لیے کوئی بھی صورت ہم سے انجانی نہیں عرش کا کچھ رابطہ تو فرش والوں سے بھی ہے عشق لا فانی ہے عاشق بھی مگر فانی نہیں ڈھونڈنے سے مل تو جاتی ہے یہ گم گشتہ کتاب ورنہ دنیا میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2