Aftab Ahmad Shah

آفتاب احمد شاہ

  • 1947

آفتاب احمد شاہ کی غزل

    اپنے ہی لہو سے کہیں مسمار نہ ہونا

    اپنے ہی لہو سے کہیں مسمار نہ ہونا دنیا کی محبت میں گرفتار نہ ہونا گمنام ہی رہنے میں بڑا نام ہے پیارے شہرت کے لیے داخل دربار نہ ہونا اے میرے خدا قید ہوں میں کیسے جہاں میں گویائی تو ہونا دم گفتار نہ ہونا بازار ہو گر مصر کا بولی تو لگانا یوسف کو جو چاہو تو خریدار نہ ہونا اوروں سے ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو پچھلے سال کا موسم بھی کچھ اچھا نہ تھا

    یوں تو پچھلے سال کا موسم بھی کچھ اچھا نہ تھا زہر بستی کی فضا میں اس قدر پھیلا نہ تھا اس قدر سرخی نہ تھی رنگ شفق میں دوستو آسماں کا رنگ پہلے یوں کبھی گدلا نہ تھا میں نہ کہہ پایا تو کیا تجھ سے نہ بن پایا تو کیا میں نہ تھا کوئی بھکاری تو کوئی داتا نہ تھا رات دن کی سرحدوں میں اب نہیں ...

    مزید پڑھیے

    لٹیرا ہے مگر وہ راہبر ہے

    لٹیرا ہے مگر وہ راہبر ہے ہمارے مال پر اس کی نظر ہے مرا حق وہم کے زمرے میں آیا ترا شک بھی حدیث معتبر ہے وہ جو کہتا تھا وہ کرتا نہیں تھا جو اس کے دل میں ہے کس کو خبر ہے بہت ہے اس کی خواہش اس کو روکے مگر مہلت نہایت مختصر ہے مکاں ملتا نہیں ہے شہر بھر میں ادھر گاؤں میں خالی میرا گھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2