خزاں کا دکھ بھی نہیں جشن رنگ و بو بھی نہیں
خزاں کا دکھ بھی نہیں جشن رنگ و بو بھی نہیں
میں تیرہ بخت نہیں ہوں تو سرخ رو بھی نہیں
وہ پاس تھا تو کسی ماسوا کا ذکر نہ تھا
وہ جا چکا ہے تو اب اس کی گفتگو بھی نہیں
یہ کس مقام پہ پہنچا دیا زمانے نے
غم زماں بھی نہیں عزم جستجو بھی نہیں
مرے نصیب میں کتنے عجیب رہبر تھے
امامتیں بھی کرائیں کیا وضو بھی نہیں
ہم آفتاب کبھی صاحب نصاب نہ تھے
کسی کی اپنے مقدر میں آرزو بھی نہیں