ایک عرصے کی مشقت رائیگاں ہونے کو ہے

ایک عرصے کی مشقت رائیگاں ہونے کو ہے
پھر کوئی سازش ہمارے درمیاں ہونے کو ہے


یا سرک جانے کو ہے پیروں کے نیچے سے زمیں
یا ہمارے سر سے رخصت آسماں ہونے کو ہے


ٹوٹنے والا ہے اب کے بے نیازی کا طلسم
وہ خفا ہونے کو ہے یا مہرباں ہونے کو ہے


دامن دل سے لپٹ کے رہ گئی ہے زندگی
یہ گلے کا طوق ہے اب حرز جاں ہونے کو ہے


کیا ہمارے ابتلا میں کچھ کمی تھی آفتابؔ
کیا ہمارا پھر سے کوئی امتحاں ہونے کو ہے