ستم کو رحم دھوکے کو بھروسہ پڑھ نہیں سکتا
ستم کو رحم دھوکے کو بھروسہ پڑھ نہیں سکتا
برے کو میں برا کہتا ہوں اچھا پڑھ نہیں سکتا
کمی شاید میری کچھ تربیت میں رہ گئی ہوگی
کہ شب کی تیرگی کو میں اجالا پڑھ نہیں سکتا
نظر نزدیک کی میری بہت کمزور ہے شاید
اسی خاطر تو میں چہروں کو پورا پڑھ نہیں سکتا
بہت کچھ پڑھ بھی سکتا ہوں پڑھائے گر کوئی مجھ کو
میرا یہ مسئلہ ہے میں اکیلا پڑھ نہیں سکتا
عجب اک مخمصے میں پڑ گیا ہوں آفتاب احمدؔ
کہ اپنا لکھ نہیں سکتا پرایا پڑھ نہیں سکتا