وہ جو حسن کل کی دلیل تھا وہ خیال آ کے سجا گیا
وہ جو حسن کل کی دلیل تھا وہ خیال آ کے سجا گیا لڑیں یوں نگاہ سے بجلیاں کوئی جیسے پردے اٹھا گیا میں حکایت دل بے نوا میں اشارت غم جاوداں میں وہ حرف آخر معتبر جو لکھا گیا نہ پڑھا گیا میں چراغ حسرت نیم شب میں شرار آتش جاں بہ لب دل پر امید کی لو تھا میں مجھے خود وہ آ کے بجھا گیا میں ...