Afeef Siraj

عفیف سراج

عفیف سراج کی غزل

    وہ جو حسن کل کی دلیل تھا وہ خیال آ کے سجا گیا

    وہ جو حسن کل کی دلیل تھا وہ خیال آ کے سجا گیا لڑیں یوں نگاہ سے بجلیاں کوئی جیسے پردے اٹھا گیا میں حکایت دل بے نوا میں اشارت غم جاوداں میں وہ حرف آخر معتبر جو لکھا گیا نہ پڑھا گیا میں چراغ حسرت نیم شب میں شرار آتش جاں بہ لب دل پر امید کی لو تھا میں مجھے خود وہ آ کے بجھا گیا میں ...

    مزید پڑھیے

    انداز‌ نمو کیسا المناک نکالا

    انداز‌ نمو کیسا المناک نکالا پیوند‌ بدن میرا سر خاک نکالا اس نے دل بے کیف کو بیمار سمجھ کر درماں کے لئے نشتر سفاک نکالا امکان کی گودی کے پلے ذہن رسا نے اک سبزہ میان خس و خاشاک نکالا صحرا کی تپش پیاس کی شدت تھی کہ اس نے بھولا ہوا اک قصۂ نمناک نکالا افسوس سلاطین چکا پائے نہ ...

    مزید پڑھیے

    آپ نے آج یہ محفل جو سجائی ہوئی ہے

    آپ نے آج یہ محفل جو سجائی ہوئی ہے بات اس کی ہی فقط بزم میں چھائی ہوئی ہے اس قدر ناز نہ کیجے کہ بزرگوں نے بہت بارہا بزم خود آرائی سجائی ہوئی ہے اس قدر شور ہے کیوں سرخیٔ اخبار پہ آج جبکہ معلوم ہے ہر بات بنائی ہوئی ہے آج تو چین سے رونے دو مجھے گوشے میں ایک مدت پہ غم دل سے جدائی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    اس نے کیوں سب سے جدا میری پذیرائی کی

    اس نے کیوں سب سے جدا میری پذیرائی کی مصلحت کوش تھی ہر بات شناسائی کی زخم دل ہم نے سجائے تو ادھر بھی اس نے ناز و انداز سے جاری ستم آرائی کی جسم ترشا ہوا سانچے میں ڈھلا ہے جیسے دست‌ آزر نے قسم کھائی ہو صناعی کی ایسا سیراب کیا اس نے کہ خود تشنہ لبی اک سند بن گئی تاریخ میں سقائی ...

    مزید پڑھیے

    شب ڈھلی میری اور سحر نہ ہوئی

    شب ڈھلی میری اور سحر نہ ہوئی حد ہوئی آپ کو خبر نہ ہوئی آپ کہتے تھے پر خطر جتنی سخت اتنی بھی رہ گزر نہ ہوئی رہ گیا درد دل کے پہلو میں یہ جو الفت تھی درد سر نہ ہوئی وقت آخر کھلا ہے یہ عقدہ بھولی صورت بھی بے ضرر نہ ہوئی کیا سے کیا کہہ رہے ہیں آپ سراجؔ آپ کی بات بارور نہ ہوئی

    مزید پڑھیے

    ترے شہر امن کا کیا کہیں کہ ہر اک مکان جدا سا ہے

    ترے شہر امن کا کیا کہیں کہ ہر اک مکان جدا سا ہے ہیں دروں پہ قفل لگے ہوئے سر طاق دیپ بجھا سا ہے ترا دشت بھی تو ہے بے کراں مری وحشتوں کی بھی حد نہیں مرے جرم خانہ خراب کو تو یہ رہ گزر بھی دلاسا ہے تری یاد آئی تو کس طرح میں پکارتا ہی چلا گیا کوئی دم رکا تو خبر ہوئی کہ یہ کوہ کوہ ندا سا ...

    مزید پڑھیے

    اے بلبل خوش لحن یہ شیریں سخنی دیکھ

    اے بلبل خوش لحن یہ شیریں سخنی دیکھ صد رنگ قبا دیکھ مری گل بدنی دیکھ ہر موج صبا پر بھی لچک جائے ہے اے ہے اے شاخ گل اندام یہ گل ریز تنی دیکھ دل کوفہ کی مانند ہوا جاتا ہے یا رب اے منبۂ رحمت ز نگاہ مدنی دیکھ واقف ہی نہیں تو مری تاریخ سے ناقد اک بار پلٹ کر کبھی خلق حسنی دیکھ دل لگتا ...

    مزید پڑھیے

    برسوں کے جیسے لمحوں میں یہ رات گزرتی جائے گی

    برسوں کے جیسے لمحوں میں یہ رات گزرتی جائے گی تم سامنے آئے گر دل کی دھڑکن بھی ٹھہر ہی جائے گی پردے میں رہوں آنکھیں میری بیتاب تو ہیں پر تاب نہیں بے تابئ دل لمحاتی ہے حالت یہ سنبھالی جائے گی آئینۂ دل شفاف تو ہو ہم کو بھی سنورنا لازم ہے ہم کو بھی پتہ ہے ملنے پر چہرے کی بحالی جائے ...

    مزید پڑھیے

    ہماری تشنہ لبی اب سبو سے کھیلے گی

    ہماری تشنہ لبی اب سبو سے کھیلے گی فغان دل رگ جان و گلو سے کھیلے گی سنبھل کے رہنا کہ اس بار صیقل ابرو کوئی بعید نہیں آبرو سے کھیلے گی کرے گا سیل ہر اک لہر کو بلند اپنی ہر ایک موج فقط آب جو سے کھیلے گی جسارت رہ پرخار دیکھیے تو سہی یہ کہہ رہی ہے مری جستجو سے کھیلے گی بہت شگفتہ و ...

    مزید پڑھیے

    بستی تمام خواب کی ویران ہو گئی

    بستی تمام خواب کی ویران ہو گئی یوں ختم شب ہوئی سحر آسان ہو گئی بے فکر ہو گیا ہوں دل و جاں سے اس لئے اس کی نگاہ ناز نگہبان ہو گئی ہے مرتبہ بلند ستاروں سے اے فلک میرا نصیب خاک خراسان ہو گئی شفاف تھا یہ شیشۂ دل اس کے سامنے بجلی کڑک کے آپ ہی حیران ہو گئی الجھا ہوا تھا عشق میں پہلے ہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2