وہ جو حسن کل کی دلیل تھا وہ خیال آ کے سجا گیا
وہ جو حسن کل کی دلیل تھا وہ خیال آ کے سجا گیا
لڑیں یوں نگاہ سے بجلیاں کوئی جیسے پردے اٹھا گیا
میں حکایت دل بے نوا میں اشارت غم جاوداں
میں وہ حرف آخر معتبر جو لکھا گیا نہ پڑھا گیا
میں چراغ حسرت نیم شب میں شرار آتش جاں بہ لب
دل پر امید کی لو تھا میں مجھے خود وہ آ کے بجھا گیا
میں غبار راہ طلب رہا ہوا در بہ در جو چلی ہوا
میں اجڑ کے جب ہوا مطمئن تو وہ مجھ کو دل میں بسا گیا
پس پردہ دل کا رفیق تھا سر پردہ میرا رقیب تھا
میں میان رد و قبول تھا کہ وہ آ کے پردہ ہٹا گیا
مجھے فکر تھی مری ذات پر کوئی رنگ بھی نہ چڑھے مگر
وہ کمال غیرت آئنہ مرا عکس مجھ کو دکھا گیا
مرا دل امیں تھا نگاہ کا تھی نگاہ محرم تجربہ
وہ فسون جلوہ کی آبرو مرے تجربوں کو مٹا گیا