Afeef Siraj

عفیف سراج

عفیف سراج کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    وہ جو حسن کل کی دلیل تھا وہ خیال آ کے سجا گیا

    وہ جو حسن کل کی دلیل تھا وہ خیال آ کے سجا گیا لڑیں یوں نگاہ سے بجلیاں کوئی جیسے پردے اٹھا گیا میں حکایت دل بے نوا میں اشارت غم جاوداں میں وہ حرف آخر معتبر جو لکھا گیا نہ پڑھا گیا میں چراغ حسرت نیم شب میں شرار آتش جاں بہ لب دل پر امید کی لو تھا میں مجھے خود وہ آ کے بجھا گیا میں ...

    مزید پڑھیے

    انداز‌ نمو کیسا المناک نکالا

    انداز‌ نمو کیسا المناک نکالا پیوند‌ بدن میرا سر خاک نکالا اس نے دل بے کیف کو بیمار سمجھ کر درماں کے لئے نشتر سفاک نکالا امکان کی گودی کے پلے ذہن رسا نے اک سبزہ میان خس و خاشاک نکالا صحرا کی تپش پیاس کی شدت تھی کہ اس نے بھولا ہوا اک قصۂ نمناک نکالا افسوس سلاطین چکا پائے نہ ...

    مزید پڑھیے

    آپ نے آج یہ محفل جو سجائی ہوئی ہے

    آپ نے آج یہ محفل جو سجائی ہوئی ہے بات اس کی ہی فقط بزم میں چھائی ہوئی ہے اس قدر ناز نہ کیجے کہ بزرگوں نے بہت بارہا بزم خود آرائی سجائی ہوئی ہے اس قدر شور ہے کیوں سرخیٔ اخبار پہ آج جبکہ معلوم ہے ہر بات بنائی ہوئی ہے آج تو چین سے رونے دو مجھے گوشے میں ایک مدت پہ غم دل سے جدائی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    اس نے کیوں سب سے جدا میری پذیرائی کی

    اس نے کیوں سب سے جدا میری پذیرائی کی مصلحت کوش تھی ہر بات شناسائی کی زخم دل ہم نے سجائے تو ادھر بھی اس نے ناز و انداز سے جاری ستم آرائی کی جسم ترشا ہوا سانچے میں ڈھلا ہے جیسے دست‌ آزر نے قسم کھائی ہو صناعی کی ایسا سیراب کیا اس نے کہ خود تشنہ لبی اک سند بن گئی تاریخ میں سقائی ...

    مزید پڑھیے

    شب ڈھلی میری اور سحر نہ ہوئی

    شب ڈھلی میری اور سحر نہ ہوئی حد ہوئی آپ کو خبر نہ ہوئی آپ کہتے تھے پر خطر جتنی سخت اتنی بھی رہ گزر نہ ہوئی رہ گیا درد دل کے پہلو میں یہ جو الفت تھی درد سر نہ ہوئی وقت آخر کھلا ہے یہ عقدہ بھولی صورت بھی بے ضرر نہ ہوئی کیا سے کیا کہہ رہے ہیں آپ سراجؔ آپ کی بات بارور نہ ہوئی

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    جوان بیٹی سے باپ کا خطاب

    مری بیٹی مری جاناں تمہیں سب یاد تو ہوگا بہت پہلے بہت پہلے جوانی کا تھا جب عالم مرے بازو میں طاقت تھی مرے سینے میں ہمت تھی انہیں ایام میں اک دن مری آغوش الفت میں کسی نے لا کے رکھا تھا تمہارا پھول سا چہرہ بدن بے انتہا نازک مرے ان سخت ہاتھوں میں عجب نرمی سی آئی تھی مری اس آنکھ نے بو سے ...

    مزید پڑھیے

    زندان نامہ

    آج تاریکئ شب حد سوا لگتی ہے جانے کیا بات ہوئی ہے کہ گھٹن ہوتی ہے گو کہ اک عمر گزاری ہے اسی زنداں میں نیم تاریک سے اس گوشۂ ویراں سے مری ایسا لگتا ہے کہ دیرینہ شناسائی ہے اس کی دیواروں پہ لکھے ہیں کئی افسانے جن میں دلگیر تمناؤں کی گہرائی ہے اس کی بے جان زمیں نے مری آنکھوں میں بہت خشک ...

    مزید پڑھیے

    ایک اجنبی لڑکی

    شام شام جیسی تھی راستوں پہ ہلچل تھی کام کرنے والے سب اپنا فرض ادا کر کے اپنے اپنے میداں سے کچھ تھکے تو کچھ ہارے اپنے گھر کو جاتے تھے بھیڑ تھی دکانوں پر گھر کو لوٹنے والے اگلی صبح کی خاطر رک کے مال لیتے تھے ہر کسی کو جلدی تھی اور شام ڈھلتی تھی ایک ہم تھے آوارہ کل نہ تھا کوئی سودا اس ...

    مزید پڑھیے