Afeef Siraj

عفیف سراج

عفیف سراج کی نظم

    جوان بیٹی سے باپ کا خطاب

    مری بیٹی مری جاناں تمہیں سب یاد تو ہوگا بہت پہلے بہت پہلے جوانی کا تھا جب عالم مرے بازو میں طاقت تھی مرے سینے میں ہمت تھی انہیں ایام میں اک دن مری آغوش الفت میں کسی نے لا کے رکھا تھا تمہارا پھول سا چہرہ بدن بے انتہا نازک مرے ان سخت ہاتھوں میں عجب نرمی سی آئی تھی مری اس آنکھ نے بو سے ...

    مزید پڑھیے

    زندان نامہ

    آج تاریکئ شب حد سوا لگتی ہے جانے کیا بات ہوئی ہے کہ گھٹن ہوتی ہے گو کہ اک عمر گزاری ہے اسی زنداں میں نیم تاریک سے اس گوشۂ ویراں سے مری ایسا لگتا ہے کہ دیرینہ شناسائی ہے اس کی دیواروں پہ لکھے ہیں کئی افسانے جن میں دلگیر تمناؤں کی گہرائی ہے اس کی بے جان زمیں نے مری آنکھوں میں بہت خشک ...

    مزید پڑھیے

    ایک اجنبی لڑکی

    شام شام جیسی تھی راستوں پہ ہلچل تھی کام کرنے والے سب اپنا فرض ادا کر کے اپنے اپنے میداں سے کچھ تھکے تو کچھ ہارے اپنے گھر کو جاتے تھے بھیڑ تھی دکانوں پر گھر کو لوٹنے والے اگلی صبح کی خاطر رک کے مال لیتے تھے ہر کسی کو جلدی تھی اور شام ڈھلتی تھی ایک ہم تھے آوارہ کل نہ تھا کوئی سودا اس ...

    مزید پڑھیے