انداز نمو کیسا المناک نکالا
انداز نمو کیسا المناک نکالا
پیوند بدن میرا سر خاک نکالا
اس نے دل بے کیف کو بیمار سمجھ کر
درماں کے لئے نشتر سفاک نکالا
امکان کی گودی کے پلے ذہن رسا نے
اک سبزہ میان خس و خاشاک نکالا
صحرا کی تپش پیاس کی شدت تھی کہ اس نے
بھولا ہوا اک قصۂ نمناک نکالا
افسوس سلاطین چکا پائے نہ قیمت
سینے سے جو ہم نے در افلاک نکالا