Afeef Siraj

عفیف سراج

عفیف سراج کی غزل

    کھل گیا خلوت تنہائی کا قصہ اے ہے

    کھل گیا خلوت تنہائی کا قصہ اے ہے چل گیا شہر میں افواہ کا سکہ اے ہے قمری و طوطی و بلبل ہیں جسے دیکھ کے مست اس گل اندام کو تم نے نہیں دیکھا اے ہے کیا کہیں کیسا لگا چاند ہمیں اس کے بغیر ڈوب کر جب غم ہجراں میں وہ نکلا اے ہے اس کے فقرے سے میں کیا سمجھوں کوئی سمجھا دے دفعتاً میری طرف ...

    مزید پڑھیے

    کب سے مانگ رہے ہیں تم سے

    کب سے مانگ رہے ہیں تم سے ساغر سے مینا سے خم سے ہم بھی کچھ کچھ کھوئے ہوئے ہیں آپ بھی لگتے ہیں گم سم سے جاگیں گے بے جان سے جذبے تیرے دہن کے حرف قم سے دوش فرس سے دیکھیں نیچے ایک بندھا ہے دل بھی سم سے سن لو فسانہ آنکھ کا میری دریا سے ندی سے قلزم سے

    مزید پڑھیے

    ہم اہل نظارہ شام و سحر آنکھوں کو فدیہ کرتے ہیں

    ہم اہل نظارہ شام و سحر آنکھوں کو فدیہ کرتے ہیں ہم جلوہ جلوہ کہتے ہیں وہ پردہ پردہ کرتے ہیں اے ناصح تو کیا کہتا ہے وہ عاجز ہے مے نوشی سے لے توڑ رہے ہیں ساغر کو ہم آج ہی توبہ کرتے ہیں سرکار کا ہے بازار بھی کیا ہر جنس خریدی جاتی ہے بیچ آئے سب ایمان دھرم ہم سر کا سودا کرتے ہیں جب ہم ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو اک عرصۂ دلگیر میں رکھا گیا تھا

    مجھ کو اک عرصۂ دلگیر میں رکھا گیا تھا زہر گویا کسی اکسیر میں رکھا گیا تھا حاشیہ متن سمجھ لے جو پڑھے قصۂ غم انتظام ایسا بھی تحریر میں رکھا گیا تھا خواب آلود نگاہوں سے یہ کہتا گزرا میں حقیقت تھا جو تعبیر میں رکھا گیا تھا عمر بھر اس لئے برسیں مری آنکھیں اے دوست ایک صحرا مری ...

    مزید پڑھیے

    میرے جنون شوق کو اتنی سی کائنات بس

    میرے جنون شوق کو اتنی سی کائنات بس کار دراز کے لئے چھوٹی سی یہ حیات بس کیسی ہیں آزمائشیں کیسا یہ امتحان ہے میرے جنوں کے واسطے ہجر کی ایک رات بس وہ ہے جمال بے کراں قیدیٔ رنگ ہے نظر دیدۂ شوق دیکھ لے آئینہ صفات بس سارے جہاں کی تہمتیں لگ چکیں ہم پہ شہر میں دیجے نہ اب صفائیاں کیجے نہ ...

    مزید پڑھیے

    اے درد نہ تھم سر اور اٹھا دل چارہ گری کی راہ نہ تک

    اے درد نہ تھم سر اور اٹھا دل چارہ گری کی راہ نہ تک دیکھ اشک فشاں ہے اب تجھ پر صحراؤں میں دیوانہ تک تم لوٹ چکے ہو گر تو کہو یا باقی ہے ارمان ابھی پہلے ہی تمہیں ہم دے بیٹھے ہیں جان کا یہ نذرانہ تک صحرا میں بسے سب دیوانے شہروں میں بھی محشر ہے برپا اللہ تری اس خلقت سے باقی نہ رہا ...

    مزید پڑھیے

    حریم دل سے نکل آنکھ کے سراب میں آ

    حریم دل سے نکل آنکھ کے سراب میں آ مری طرح کبھی میدان اضطراب میں آ پیمبروں کی زبانی کہی سنی ہم نے وہ کہہ رہا تھا کہ میرے بھی انتخاب میں آ سنا ہے آج عماری فلک سے اترے گی مجھے بھی نیند گر آئے تو میرے خواب میں آ تجھے خدائی کا دعویٰ ہے گر تو کم سے کم زمین پر کوئی دن رنگ بو تراب میں ...

    مزید پڑھیے

    شوق وارفتہ چلا شہر تماشا کی طرف

    شوق وارفتہ چلا شہر تماشا کی طرف بڑھ گئے ہم بھی حصار‌ حسن لیلیٰ کی طرف ہم سے موجیں کہہ رہی تھیں آ مری آغوش میں ہم کہاں یوں جا رہے تھے موج دریا کی طرف اس قدر ڈوبے گناہ عشق میں تیرے حبیب سوچتے ہیں جائیں گے کس منہ سے توبہ کی طرف کیا ضروری ہے کہ حرص جلوئے صد رنگ میں ہر نظر بھٹکے کسی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2