شب ڈھلی میری اور سحر نہ ہوئی
شب ڈھلی میری اور سحر نہ ہوئی
حد ہوئی آپ کو خبر نہ ہوئی
آپ کہتے تھے پر خطر جتنی
سخت اتنی بھی رہ گزر نہ ہوئی
رہ گیا درد دل کے پہلو میں
یہ جو الفت تھی درد سر نہ ہوئی
وقت آخر کھلا ہے یہ عقدہ
بھولی صورت بھی بے ضرر نہ ہوئی
کیا سے کیا کہہ رہے ہیں آپ سراجؔ
آپ کی بات بارور نہ ہوئی