ترے شہر امن کا کیا کہیں کہ ہر اک مکان جدا سا ہے

ترے شہر امن کا کیا کہیں کہ ہر اک مکان جدا سا ہے
ہیں دروں پہ قفل لگے ہوئے سر طاق دیپ بجھا سا ہے


ترا دشت بھی تو ہے بے کراں مری وحشتوں کی بھی حد نہیں
مرے جرم خانہ خراب کو تو یہ رہ گزر بھی دلاسا ہے


تری یاد آئی تو کس طرح میں پکارتا ہی چلا گیا
کوئی دم رکا تو خبر ہوئی کہ یہ کوہ کوہ ندا سا ہے


مری غیرت ہمہ گیر نے مجھے تیرے در سے اٹھا دیا
کچھ انا کا زور جو کم ہوا تو خبر ہوئی تو خدا سا ہے


ابھی لا کی منزل سخت میں ہوں فریب و وہم و گماں لئے
مرے دل میں پھر بھی بسا ہوا ترا نام رد بلا سا ہے


یہ مسافتیں شب تار کی یہ نہ ختم ہونے کے سلسلے
ابھی فاصلہ رگ جاں سے ہے تو ہنوز گرچہ ذرا سا ہے


ترے خط حسن و جمال کو مرے حرف آئنہ ساز نے
کئی رنگ دے دئے پر کشش مگر اب بھی ایک خلا سا ہے