افضل صفی کی غزل

    عکس کھل جاتا ہے لیکن دائرہ کھلتا نہیں

    عکس کھل جاتا ہے لیکن دائرہ کھلتا نہیں سامنے چہرہ نہ ہو تو آئینہ کھلتا نہیں روح سے محروم بینائی پہ منظر کیا کھلے آنکھ کی دہلیز پر تو رتجگا کھلتا نہیں مصلحت کے جگنوؤں کو ساتھ رکھتے ہیں میاں رنجشوں کے درمیاں تو راستہ کھلتا نہیں زندگی اور موت دونوں ہی انوکھے بھید ہیں ایک کھل ...

    مزید پڑھیے

    تم بھی تھے سر دار سر دار تھا میں بھی

    تم بھی تھے سر دار سر دار تھا میں بھی تم دیکھ تو لیتے کہ نمودار تھا میں بھی یہ جسم رکاوٹ تھا میرے عشق میں شاید اور سچ ہے کہ اس جسم سے بیزار تھا میں بھی ممکن ہے کہ بیتاب رہا ہو کبھی تو بھی یادوں کی اذیت میں گرفتار تھا میں بھی بازار میں لایا گیا یوسف کی طرح میں کچھ دیر سہی رونق ...

    مزید پڑھیے

    میں وارفتہ ستارو کا مری منزل تو آگے ہے

    میں وارفتہ ستارو کا مری منزل تو آگے ہے میں راہی رہ گزاروں کا مری منزل تو آگے ہے نہ پھولوں کی تمنا ہے نہ خوشبو سے کوئی مطلب نہ میں دشمن ہوں خاروں کا مری منزل تو آگے ہے مجھے غوطے لگانے ہیں مجھے گوہر سے مطلب ہے نہیں خواہاں کناروں کا مری منزل تو آگے ہے اندھیروں میں چمکتا ہوں سدا ...

    مزید پڑھیے

    میرے ادراک میں سوچوں کا گزر رہتا ہے

    میرے ادراک میں سوچوں کا گزر رہتا ہے جس طرح دہر میں لمحوں کا سفر رہتا ہے جانے کس سازشی ماحول کی سوغاتیں ہیں کوئی مفلس تو کوئی صاحب زر رہتا ہے ہم اچھالیں گے اسی شب کے سمندر سے نجوم اک یہی جذبۂ نو پیش نظر رہتا ہے جبر حالات سے لرزے نہ کہیں ساری زمیں اجنبی خوف سا کیوں شام و سحر رہتا ...

    مزید پڑھیے

    چراغ نور تھامے دشت سے جگنو نکل آئے

    چراغ نور تھامے دشت سے جگنو نکل آئے پلٹ کر دیکھ لیں شاید کوئی پہلو نکل آئے تمہارے ہجر میں پتھرا گئی ہے آنکھ ساون کی ملو ہم سے کہ یوں شاید کوئی آنسو نکل آئے ہمہ تن رقص رہتا ہوں یہی میں سوچ کے شاید تمنا سوز صحرا سے کوئی آہو نکل آئے یہ کوئے یار ہے کوئی کرشمہ ہو بھی سکتا ہے اگر اس حبس ...

    مزید پڑھیے

    اوڑھا ہے جب سے میں نے تمہارے وجود کو

    اوڑھا ہے جب سے میں نے تمہارے وجود کو اک آگ لگ گئی میرے سارے وجود کو اٹھتی ہے میرے جسم سے تیرے بدن کی لو لگتا ہے چوم لیں گے ستارے وجود کو میں نے بدن اتار کے گٹھڑی میں رکھ دیا کیسے سنبھالتا میں ادھارے وجود کو یہ روح کا سفر بھی سمندر سے کم نہیں ملتے نہیں ہیں اس کے کنارے وجود کو تھا ...

    مزید پڑھیے

    دیا روشن ہے لیکن تیرگی کا رقص جاری ہے

    دیا روشن ہے لیکن تیرگی کا رقص جاری ہے خرد حیرت زدہ ہے بے بسی کا رقص جاری ہے تصور آئینہ خانہ ہے ہر تصویر افسردہ بکھرتی کرچیوں میں زندگی کا رقص جاری ہے مسخر کر لیا انساں نے عجلت میں ستاروں کو محبت مر رہی ہے آگہی کا رقص جاری ہے جو کہنا تھا نہیں کہتے جو کہتے ہیں وہ بے معنی کہی ہے ان ...

    مزید پڑھیے

    سمٹے ہیں خود میں ایسے کہ وسعت نہیں رہی

    سمٹے ہیں خود میں ایسے کہ وسعت نہیں رہی تسخیر کائنات کی ہمت نہیں رہی اب کے خزاں کے خوف سے پتے نہیں جھڑے شاید ہوا کے دل میں کدورت نہیں رہی میں نے کہا کہ کوئی ہو خدمت مرے حضور اس نے کہا کہ تیری ضرورت نہیں رہی جکڑا ہوا ہوں وقت کی آکاس بیل میں اس کرب سے فرار کی صورت نہیں رہی چہروں کی ...

    مزید پڑھیے

    میری وحشت کا نظارہ نہیں ہوتا مجھ سے

    میری وحشت کا نظارہ نہیں ہوتا مجھ سے اپنا ہونا بھی گوارہ نہیں ہوتا مجھ سے میں جو یہ معجزۂ عشق لیے پھرتا ہوں ایک جگنو بھی ستارہ نہیں ہوتا مجھ سے گھیر رکھا ہے مجھے چاروں طرف سے اس نے اس تعلق سے کنارہ نہیں ہوتا مجھ سے میں ہوں دہلیز پہ رکھے ہوئے پتھر کی طرح اب محبت میں گزارہ نہیں ...

    مزید پڑھیے