میرے ادراک میں سوچوں کا گزر رہتا ہے
میرے ادراک میں سوچوں کا گزر رہتا ہے
جس طرح دہر میں لمحوں کا سفر رہتا ہے
جانے کس سازشی ماحول کی سوغاتیں ہیں
کوئی مفلس تو کوئی صاحب زر رہتا ہے
ہم اچھالیں گے اسی شب کے سمندر سے نجوم
اک یہی جذبۂ نو پیش نظر رہتا ہے
جبر حالات سے لرزے نہ کہیں ساری زمیں
اجنبی خوف سا کیوں شام و سحر رہتا ہے
رابطہ پیڑ سے کٹ جاتا ہے جس وقت صفیؔ
خشک پتے کو تو جھونکے کا بھی ڈر رہتا ہے