میں وارفتہ ستارو کا مری منزل تو آگے ہے

میں وارفتہ ستارو کا مری منزل تو آگے ہے
میں راہی رہ گزاروں کا مری منزل تو آگے ہے


نہ پھولوں کی تمنا ہے نہ خوشبو سے کوئی مطلب
نہ میں دشمن ہوں خاروں کا مری منزل تو آگے ہے


مجھے غوطے لگانے ہیں مجھے گوہر سے مطلب ہے
نہیں خواہاں کناروں کا مری منزل تو آگے ہے


اندھیروں میں چمکتا ہوں سدا گردش میں رہتا ہوں
میں ساتھی شب کے تاروں کا مری منزل تو آگے ہے


نہ تھک کر بیٹھ سکتا ہوں نہ شاکی ہوں مقدر کا
عصا ہوں بے سہاروں کا مری منزل تو آگے ہے