عکس کھل جاتا ہے لیکن دائرہ کھلتا نہیں
عکس کھل جاتا ہے لیکن دائرہ کھلتا نہیں
سامنے چہرہ نہ ہو تو آئینہ کھلتا نہیں
روح سے محروم بینائی پہ منظر کیا کھلے
آنکھ کی دہلیز پر تو رتجگا کھلتا نہیں
مصلحت کے جگنوؤں کو ساتھ رکھتے ہیں میاں
رنجشوں کے درمیاں تو راستہ کھلتا نہیں
زندگی اور موت دونوں ہی انوکھے بھید ہیں
ایک کھل جاتا ہے لیکن دوسرا کھلتا نہیں
لفظ جو دل سے نہ نکلیں بے اثر رہ جاتے ہیں
بے یقینی میں کبھی حرف دعا کھلتا نہیں
عشق سے واقف نہیں ہے نکتہ چیں تیرا صفیؔ
شعر کیا کھلتا کہ اس پر قافیہ کھلتا نہیں