سمٹے ہیں خود میں ایسے کہ وسعت نہیں رہی
سمٹے ہیں خود میں ایسے کہ وسعت نہیں رہی
تسخیر کائنات کی ہمت نہیں رہی
اب کے خزاں کے خوف سے پتے نہیں جھڑے
شاید ہوا کے دل میں کدورت نہیں رہی
میں نے کہا کہ کوئی ہو خدمت مرے حضور
اس نے کہا کہ تیری ضرورت نہیں رہی
جکڑا ہوا ہوں وقت کی آکاس بیل میں
اس کرب سے فرار کی صورت نہیں رہی
چہروں کی بازیافت سے میں تھک گیا صفیؔ
اور خون میں بھی پہلی حرارت نہیں رہی