تم بھی تھے سر دار سر دار تھا میں بھی
تم بھی تھے سر دار سر دار تھا میں بھی
تم دیکھ تو لیتے کہ نمودار تھا میں بھی
یہ جسم رکاوٹ تھا میرے عشق میں شاید
اور سچ ہے کہ اس جسم سے بیزار تھا میں بھی
ممکن ہے کہ بیتاب رہا ہو کبھی تو بھی
یادوں کی اذیت میں گرفتار تھا میں بھی
بازار میں لایا گیا یوسف کی طرح میں
کچھ دیر سہی رونق بازار تھا میں بھی
خود اپنے تعاقب میں نکل آیا تھا گھر سے
خود اپنی عداوت میں گرفتار تھا میں بھی
چہروں کی جگہ صرف خراشیں ہیں نمایاں
بستی میں کبھی آئینہ بردار تھا میں بھی
اے گردش دوراں یہ تغیر نہیں اچھا
تو سوچ کبھی صاحب دستار تھا میں بھی
خود بیچنے نکلا تھا صفیؔ خود کو جہاں میں
اور بھیڑ میں خود اپنا خریدار تھا میں بھی