اوڑھا ہے جب سے میں نے تمہارے وجود کو

اوڑھا ہے جب سے میں نے تمہارے وجود کو
اک آگ لگ گئی میرے سارے وجود کو


اٹھتی ہے میرے جسم سے تیرے بدن کی لو
لگتا ہے چوم لیں گے ستارے وجود کو


میں نے بدن اتار کے گٹھڑی میں رکھ دیا
کیسے سنبھالتا میں ادھارے وجود کو


یہ روح کا سفر بھی سمندر سے کم نہیں
ملتے نہیں ہیں اس کے کنارے وجود کو


تھا لمحۂ وصال کہیں جسم سے پرے
اب اس جگہ سے کون پکارے وجود کو


اک ہوک سی اٹھی ہے تیرے وصل کی صفیؔ
سمجھائے کون ہجر کے مارے وجود کو