Adil Hayat

عادل حیات

عادل حیات کی نظم

    لکیریں

    ہتھیلی کی لکیروں میں مقدر قید ہے عمر رواں کے بیشتر لمحے نہ جانے کون سی آسودگی کی جستجو میں کتنے ہی دریاؤں کو اک رو میں پیچھے چھوڑ آئے ہیں مگر ساحل پہ آ کر میرے پیاسے ہونٹ اب تک پھڑپھڑاتے ہیں مری آنکھوں میں بھی ناکامیاں ہی رقص کرتی ہیں مگر احساس کے تاریک آنگن میں امیدوں کی کرن ...

    مزید پڑھیے

    کاغذ کی نیا

    سن اے مانجھی سن لے کھویا کاغذ کی ہے میری نیا ہر مشکل سے لڑنا اس کو آگے آگے بڑھنا اس کو جا نیا نانی کے گاؤں ٹھنڈی ہے برگد کی چھاؤں آنگن میں تلسی لہراتی نانی شام میں بتی جلاتی اک نیا پانی کا رشتہ اک میرا نانی کا رشتہ نیا پیاری لوٹ کے آنا نانی کا پھر حال بتانا

    مزید پڑھیے

    دوسرا بستر

    سجائے خواب آنکھوں میں سحر سے شام تک انجان راہوں میں ابھرتے ڈوبتے سایوں کو تکتی ہے کوئی شہزادہ آ جائے بنا کر خواب کا حصہ اسے لے کر چلا جائے کھلا رہتا ہے ہر لمحہ دریچہ درد کا اس کے مگر آتا نہیں کوئی سیاہی شام ڈھلتے ہی نگل جاتی ہے خوابوں کو اجالوں چھوڑ جاتا ہے اسے پھر دوسرا بستر ...

    مزید پڑھیے

    منظر

    رات جلتی رہی دن پگھلتا رہا پیاس کے کرب سے ہونٹ سیلاب آنکھوں کا پیتے رہے ایک امید پر سانس چلتی رہی صبح کی تھرتھراتی ہوئی روشنی میں مگر کوئی ایسا نہیں ساتھ تنہائیوں کے جو چلتا رہے ایک سورج ہے جو اپنی ہی آگ میں جل رہا ہے مگر دن کی لمبی ڈگر روشنی میں ہے اس سے نہائی ہوئی

    مزید پڑھیے

    نارسا

    مجھے برباد کرنے میں مزہ آیا تو کچھ ہوگا سیاہی پوت دی تقدیر پر لا کر مجھے تاریکیوں کے غار میں چھوڑا جہاں میں ساتھ اک اک سانس کے مقدور بھر کوشش کئے جاتا ہوں لیکن مجھے ملتی نہیں ہے راہ جس پر میں قدم آگے بڑھاؤں اپنے حصے کی وہ چیزیں چھین لوں جن کو چھپا کر میری آنکھوں سے مرے ہی واسطے ...

    مزید پڑھیے

    آکٹوپس

    خواہش کا اک سمندر میرے دل میں دور تک اپنی جڑیں پھیلائے مجھ کو اپنے گھیرے میں لیے اپنی موجوں کے سہارے چوس لینا چاہتا ہے سب لہو غالباً اک آکٹوپس کے گھنے پنجوں کی زد میں ہوں میں عادلؔ

    مزید پڑھیے

    عبث

    مرا گھر اجنبی لگتا ہے کیوں آخر وہ راہیں بھی جو گھر تک لے کے جاتی ہیں کبھی تھیں آشنا مجھ سے مگر نا آشنا اب ہیں بہت مایوس ہوں سب سے مجھے پہچاننے والا نہیں کوئی کوئی رشتہ بھی اب اپنا نہیں لگتا یہاں کی ریشمی صبحیں اجالے اپنے آنگن کے اداسی سے بھری شامیں چمکتے رات کے تارے سبھی یہ مجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    گرد راہ

    پھر مرے احساس نے مجھ کو اڑا کر ساتھ اپنے یہ کہاں پر لا کے چھوڑا اجنبی اس شہر میں لگتا ہے جیسے سیکڑوں افراد میرے ہم نوا و ہم قدم ہو کر پرائے شہر میں میری طرح ہی راستے کی گرد بن کر اڑ رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    دیپاولی

    جب سے آئی ہے دیپاولی ہر طرف چھائی ہے روشنی ہر جگہ چاہتوں کے دیے شام ہوتے ہی جلنے لگے پھلجھڑیوں کا بازار ہے یہ پٹاخوں کا تہوار ہے دیپوں کا ہے سہانا سماں جن سے دھرتی بنی کہکشاں جتنے راکٹ پٹاخے چلے آسماں پر لگے ہیں بھلے ہو گئیں دور تاریکیاں اب ہیں روشن زمیں آسماں جب سے آئی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    سواگت

    کوئی آواز جب بھی سنسناتی ہے کبھی سنسان راتوں میں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے یک بہ یک آ کر ہوا کا تیز جھونکا میرے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹاتا ہے مگر پٹ کھولتا ہوں جب مری محرومیاں ہاتھوں کو پھیلائے سواگت میرا کرتی ہیں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2