دیپاولی

جب سے آئی ہے دیپاولی
ہر طرف چھائی ہے روشنی
ہر جگہ چاہتوں کے دیے
شام ہوتے ہی جلنے لگے
پھلجھڑیوں کا بازار ہے
یہ پٹاخوں کا تہوار ہے
دیپوں کا ہے سہانا سماں
جن سے دھرتی بنی کہکشاں
جتنے راکٹ پٹاخے چلے
آسماں پر لگے ہیں بھلے
ہو گئیں دور تاریکیاں
اب ہیں روشن زمیں آسماں
جب سے آئی ہیں دیپاولی
ہر طرف چھائی ہے روشنی
ایک موقع ہے پہچان کا
دل ملاتی ہے انسان کا
چاہتوں کی یہ تصویر ہے
اک نئے یگ کی تعبیر ہے