مضمون

ایک سعادت مند بیٹے کے قلم سے والد کی محبت اور والد سے محبت کی ان مٹ داستان

باپ

مطالعے کا شوق زندگی کے آخری دن تک رہا۔ نوائے وقت اخبار روزانہ پڑھتے اور یہ معمول تادمِ مرگ جاری رہا۔ اخبار کے تمام سلاسل جیسے نورِ بصیرت، سرراہے، اداریہ کا عمیق مطالعہ کرتے۔ کالم نگاروں میں جناب عرفان صدیقی، جناب عطاء الحق قاسمی، محترمہ طیبہ ضیاء اور اجمل نیازی مرحوم والد صاحب کو بہت محبوب تھے۔ تاریخی کرداروں کے بارے میں چھپنے والے سلاسل بہت شوق سے پڑھتے۔ ٹیپو سلطان کے بارے میں خان آصف کا لکھا ہوا ناول ایک مرتبہ کسی جریدے میں قسط وار چھپا تو والد صاحب نے سارا پڑھا۔ ٹیپو سلطان کے بہت بڑے مداح تھ

مزید پڑھیے

کیا جرات کا کوئی سیرم یا محلول ہے ، جس سے بزدل کو بہادر بنایا جائے؟

جرات

اچھا  جرات مندی کا وراثت سے بھی کچھ واسطہ نہیں، کہ اسی محمد شاہ رنگیلا کے اجداد جرات مندی اور بہادری کے استعارے تھے، فرخ سیر ، اورنگ زیب ، شاہ جہاں، جہاں گیر ، اکبر ، ہمایوں ،بابر ، کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں ، کہ یہ تو تیموری لڑی تھی۔ مگر بہادروں کے گھر بزدل اور بزدلوں کے گھر  میں بہادر پیدا ہو جایا کرتے ہیں ۔ سائرس کی داستان تو سب نے سنی ہی ہو گی ناں!!! 

مزید پڑھیے

فیض احمد فیض کو ملنے والی انوکھی سزا

فیض

فیض صاحب! میری بیوی کو آپ کی نظم  ، مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، بہت پسند ہے۔ وہ مجھے بار بار طعنے دیتی ہے کہ تم ہمیں ایک شاعر سے اس کی ایک نظم بھی نہیں سنواسکتے۔ خدا  رکھے آپ کے بلا لائسنس ریڈیو کو، اس کے طفیل مجھے آپ سے اپنی  یہ عرض کرنے کا موقع مل گیا۔

مزید پڑھیے

بر صغیر کے مسلمانوں میں غیر ضروری جذباتیت کیوں ہے؟

عقل

حقائق کو جانے پرکھے بغیر ہر قسم اور روپ کی بلا وجہ و بے سر و پا جذباتیت تخلیق کرکے دانستہ یا نا دانستہ عوام کے غم و غصے کو مٹانے کا کام لیا جاتا ہے۔ تاکہ عوام کے جذبات کسی تحریک کی شکل اختیار نہ کر سکیں اور کسی بڑی تبدیلی کا باعث نہ بن سکیں۔ مثال کے طور پر صرف تحریک خلافت کے واقعات ہی دیکھ لیجیے۔

مزید پڑھیے

وہاں ، جہاں دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے

روش

گہری سبز گھاس سے لدے میدان، اطراف میں کیاریاں، بیچ بیچ میں پھولوں سے لدے تختے جیسے جھومر میں سجے نگینے، کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے تالاب، کچھ روشوں کے کنارے ایسے درخت جو اوپر جا کے مل جاتے اور پھولوں کی چھت بن جاتی۔ چھوٹے چھوٹے بورڈز پہ پھولوں کے نام اور معلومات۔ ہر سیاح تصویریں اتارتے نہ تھکتا۔

مزید پڑھیے

تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم

''غلام'' تو وہ ہیں جن کے مسکن حویلیاں اور محلات ہیں۔ مربعوں اور جاگیروں کے مالک ہیں۔ جن کے لئے روزگار کی کمی ہے، نہ حلال کمانے اور کھانے میں کوئی رکاوٹ۔ نہ تو ان کے مال و دولت پہ کسی کا زور آور کا زور چلتا ہے ، نہ  ہی ان کی زندگی کسی کے رحم و کرم کی محتاج ہے۔

مزید پڑھیے

اقبال کی اردوشاعری :جب نظم پر غزل اور غزل پر نظم کا گماں گزرتا ہے

علامہ اقبال

دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبالؔ کی بیشتر نظمیں کسی فوری واقعے یا کسی خارجی امر سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہیں۔ مگر نظم اس فوری تاثر سے بلند ہو کر ایک ایسی نظر یا نظریے کی حامل ہوگئی ہے جس میں ایک دیرپا آفاقی یا ابدی کیفیت آگئی ہے۔ ترانہ ہندی، حضور رسالت مآبؐ میں، زہد اور رندی، طلبہ علی گڑھ کالج کے نام، موٹر، اسیری، دریوزۂ خلافت، ابی سینا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ نظموں میں تمثیلی حکایات کی وہ روایت جو در اصل رومی کی ہے اور جسے اردو میں حالیؔ، شبلیؔ اور اکبرؔ نے کامیابی سے برتا ہے، اقبالؔ کے یہاں بھی جلوہ

مزید پڑھیے

ڈاکٹر علی شریعتی کی اپنے صاحب زادے ، احسا ن کو وصیت

علی شریعتی

ڈاکٹر علی شریعتی شہید رحمۃ اللہ علیہ ایرانی انقلاب کے نقیب ، مبلغ ، اسلامی اسکالر اور فلسفی تھے ۔ ان کی تصانیف ایک خالص اسلامی مصنف اور امت کا درد رکھنے والے ایک مبلغ کے قلم کی عکاس ہیں۔ استعمار کے سخت ترین نقاد اور کاٹ کھانے والی ملوکیت کی خلاف آواز بلند کرنے پر آپ کو رضا شاہ پہلوی کی خفیہ ایجنسی ، ساواک کے کارندوں نے 19 جون 1977 کو شہید کر دیا۔۔۔۔ جبکہ میٹر لنک ، بیلجیم کے شاعر اور ڈرامہ نویس تھے ، جنہیں دنیا بھر میں اپنی ادبی خدمات کے باعث بہت سراہا جاتا ہے ۔

مزید پڑھیے

اپنی زبان پر فخر آخر کیوں نہ کیا جائے

مولانا ابو الکلام

اس تاریخی واقعہ کے پہلے مخاطب وہ لوگ ہیں ، جو اپنی زبان، روایات یا شناخت کو چھوڑ کر بدیسی زبان اور عادات و اطوار پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ مثلاً حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ میں اردو زبان میں گفتگو کرنے والے قومی کرکٹرز پر نکتہ چِیں اور چِیں بہ جبیں نادان دوست۔

مزید پڑھیے

دھوپ نکلنے تلک ، اعتبار مت کرنا

استعمار

بیشتر ایک استعمار ، کسی دوسرے استعمار کو گھر بھیج کر خود مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کے لیے میرے  اور آپ کے خون کو  استعمال کرتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم بظاہر  فتح یاب ، غازی  ، شہید   یا شہدا کے وارث ہو کر بھی تہی دست رہ جاتے ہیں۔ اور ان تحاریک میں کچلے جانے والے فرد کو چہار دانگ عالم سے کوئی مددگار نہیں ملتا ، کوئی پُرسانِ حال میسر نہیں آتا ،" پھرتے ہیں میر خوار  کوئی پوچھتا نہیں" ، کہ استعمار کی سرشت و منشور  میں فرد  کا  تحفظ یا  فلاح  و بہبود کبھی تھے ہی نہیں۔

مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 77