پارۂ سنگ کے نام

نہ جانے کتنا عرصہ ہوا کہ مختلف موضوعات پر لکھتا آ رہا ہوں۔ کبھی اگر ذہن میں کوئی خیال کوند آئے تو اسے الفاظ کا روپ دینے کے لیے زیادہ مشقت نہیں کرنا پڑی۔ لیکن آج صورتِ حال یک سر مختلف ہے۔ کئی روز سے سوچ رہا ہوں کہ والدِ گرامی کے چلے جانے کے بعد ان کے لیے کچھ کہوں، کچھ لکھوں۔ مگر تادمِ تحریر بھی خیالات کو الفاظ کا قالب پہنانے سے قاصر ہوں۔ بات کہاں سے شروع کروں، نہیں جانتا۔ مگر دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا میری ذات پر قرض ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں۔ تو چلیے، کرتے ہیں دو چار باتیں۔ تحریر کی طوالت کے لیے معذرت اس گزارش کے ساتھ کرتا ہوں کہ اسے مکمل پڑھیے گا اور پڑھ کر میرے والد صاحب کے لیے دعا ضرور فرمائیے گا۔

والد صاحب قبلہ فقط ایک شخصیت نہیں، ایک اثاثہ، ایک ادارہ تھے۔ ایسا اثاثہ جو صرف اپنی اولاد، عزیز و اقارب کے لیے ہی سرمایہ نہ تھا، بلکہ ایک عالم کے لیے گراں قدر متاع تھا۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ اس مختصر ٹکڑے میں تمام پہلوؤں کا احاطہ ممکن نہیں، تاہم کچھ باتوں کا ذکر کیے دیتا ہوں۔ یہ واضح کرتا چلوں کہ ان کے اوصاف ایک بیٹے کے طور پر نہیں، ایک ایسے شخص کے طور پر لکھ رہا ہوں جس نے کم و بیش ربع صدی مرحوم کی نشست و برخاست و سفر و حضر کا مشاہدہ کیا۔ مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ قارئین میں سے جو اشخاص میرے والد صاحب کو ذاتی طور پر جاتنے ہیں، وہ میرے خیالات سے مکمل طور پر متفق ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔  

والد صاحب قبلہ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کی انسان دوستی اور سماجی وابستگی تھی۔ وہ ہر ایک کے دوست، ہر ایک کے غم گسار تھے۔ میں نے انہیں جب کبھی پریشان پایا تو اسی وجہ سے پایا کہ کسی واقفِ حال پر کسی موذی بیماری کا حملہ ہے، کسی دوست پر مالی مصائب آن پڑے ہیں یا کوئی جاننے والا کسی قانونی مسئلے میں گرفتار ہے۔ میں نے انہیں کبھی اپنے لیے پریشان دیکھا ہی نہیں۔ ان کی ذات کا محور سماجی خدمت کا مقصد تھا۔ وہ دوستیاں بنانے اور تعلق نبھانے پر یقین رکھتے تھے۔ میں نے ہوش سنبھالا تو انہیں اپنے دوستوں کے جھرمٹ میں گھرا پایا۔ جو دوست اس وقت ان کے ساتھ تھے، وہ زندگی کی آخری سانس تک ساتھ رہے۔ اکسٹھ برس سے زائد عمر پائی اور بتاتے تھے کہ فلاں دوست سے میرا تعلق پنتالیس برس پرانا ہے اور فلاں صاحب سے رفاقت کو تیس برس سے زائد ہو چلے ہیں۔ میں نے ان کے دوستوں کے حلقے کو وسیع سے وسیع تر ہوتے دیکھا۔ ان کے حلقہِ احباب میں خاک روب بھی تھا اور ضلعی انتظامیہ کے افسران بھی۔ ان کی دوستیاں وکلاء سے بھی تھیں اور پولیس والوں سے بھی۔ ان کے رفقاء میں اعلیٰ عدلیہ کے منصفین بھی شامل تھے اور اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی بھی۔ اور وہ ہر ایک سے اس کی استعداد اور شخصیت کے مطابق بات کرتے۔ یہ وصف آج کل نہایت ناپید ہے۔

 وہ اپنے حلقہِ احباب کی جان ہوا کرتے تھے۔ وہ جس محفل میں ہوتے، وہاں ہر شخص کی توجہ کا مرکز ہوتے۔ اس کی وجہ ان کی تواضع، وضع داری، دیانت داری، انکساری، خوش مزاجی اور بندہ پروری تھی۔  حاضر جوابی میں ملکہ حاصل تھا۔ لطائف کی پٹاری ہر وقت پاس موجود رہتی، مگر مجال ہے کہ کبھی ایک بات بھی اخلاقیات کے وضع کردہ معیارات سے گری ہوئی ہو۔ میں نے انہیں کبھی فحش گوئی کرتے نہیں سنا۔ سماجی خدمت کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اسکول کے زمانے میں سکاؤٹ رہے تھے۔ اکثر فخریہ انداز سے بتاتے کہ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ڈیوٹی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ والد صاحب ہر صحت مندانہ سرگرمی کے انعقاد میں پیش پیش ہوتے۔ فٹ بال، باسکٹ بال، ماہی گیری اور دیگر کھیلوں کے مقابلے کا انعقاد ابا جی کی اولین ترجیح رہتا۔ ربیع الاول شریف کی محافل اور دیگر تقریبات کا انعقاد بڑھ چڑھ کر کرتے۔ سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں شہر بھر کے مختلف طبقات کی توجہ مرکوز کرنا ان کے لیے کچھ مشکل نہ تھا، کہ وہ ہر ایک کے دوست تھے۔

 ان کے کسی دوست کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ، تو اس کی امیدوں کا مرکز رب تعالیٰ کی ذات کے بعد والد صاحب قبلہ ہوتے۔ بجلی کا بل زیادہ آ گیا ہے یا گیس کا میٹر اتر گیا ہے، فون کا کنکشن کٹ گیا ہے یا علاقے میں پانی کے پائپ کا مسئلہ ہے، کسی کا دیوانی مقدمہ عدالت میں تاخیر کا شکار ہے یا کسی کا بھائی کسی جھوٹی ایف آئی آر میں گرفتار ہے، والد صاحب قبلہ کے پاس ہر مسئلے کا حل ہمہ وقت موجود رہتا۔ لوگوں کے مسائل حل کرنے میں میں نے انہیں ہمیشہ پیش پیش پایا۔ شہر بھر کے رؤسا اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی صاحبِ اختیار سے ایک تنکا بھی طلب نہیں کیا، مگر لوگوں کے روزمرہ اور دیگر مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ شاید یہ اسی بات کا ثمر ہے کہ ان کی نمازِ جنازہ میں تِل دھرنے کو جا نہ تھی۔ بہت سے لوگ مختلف مسائل کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے تو جنازے کے بعد تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ چشمِ فلک نے یہ منظر بارہا دیکھا کہ ان کی وفات پر تعزیت کے لیے آنے والوں  کے چہرے اشکوں سے تر رہے اور میں ان کی دھاڑس بندھاتا رہا۔ دیکھنے والوں کو گمان ہوتا کہ شاید آنے والے کا کوئی عزیز دنیا سے رخصت ہوا ہے اور عماد انہیں حوصلہ دے رہا ہے۔ ہر شخص کی زبان پر یہ جملہ تھا : "جیہڑا پیار اوناں میرے نال کیتا، ایناں کسے ہور نال نئیں کیتا۔ مینوں ہر دوجے دن صرف خیر خیریت پچھن لئی ٹیلی فون کردے سی، ملاقات تے ہر ہفتے ہو جاندی سی۔"

والد صاحب قبلہ کی ذات کی دوسری اہم بات ان کی مالی دیانت داری تھی۔ زندگی کے قریب پنتالیس برس فرنیچر کے کاروبار سے منسلک رہے، مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کی ذات سے کسی کو مالی نقصان پہنچا ہو۔ اپنے کام سے انہیں عشق تھا۔ کبھی کسی نے ان سے خیانت کی شکایت نہیں کی۔ مالی اعتبار سے ان کے معاملات انتہائی درست تھے۔ بہت مرتبہ لوگوں نے جھانسا دے کر فراڈ سکیمز میں پیسے لگوانے کی کوشش کی، مگر وہ ہمیشہ اپنا دامن ان کانٹوں سے بچا گئے۔ میں نے اپنے مختصر پیشہ ورانہ کیریئر میں اعلیٰ ترین افسران و شخصیات کو فراڈ کا نشانہ بنتے دیکھا، مگر قربان جاؤں والد صاحب کی فہم و فراست کے، کہ وہ ہمیشہ ایسی لغزشوں سے محفوظ رہے۔ ساتھ ہی ساتھ مالی اعتبار سے ان کا دامن شیشے کی طرح شفاف رہے۔ ایک مرتبہ ایک صارف سے بہ سلسلہِ کاروبار کچھ رقم ایڈوانس لی۔ کچھ دنوں بعد ان صاحب کا انتقال ہو گیا۔ ان کے ورثاء نے آ کر والد صاحب سے مطالبہ کیا کہ ہمارے والد کے ادا کیے گئے پچاس ہزار روپے واپس کر دیجیے۔ والد صاحب نے کہا کہ آپ کے والد نے مجھے بچاس ہزار نہیں، بلکہ ستر ہزار روپے دیے تھے جو کہ آپ کی امانت ہے، جب چاہیں واپس لے لیجیے گا۔ ورثاء اس دیانت داری پر دم بہ خود رہے۔ ایک مرتبہ بینک سے بیس ہزار روپے کی رقم نکلوائی تو کیشیئر نے 500 کے 40 نوٹ دیے۔ والد صاحب نے 1000 کے 20 نوٹوں کا تقاضا کیا تو کیشیئر نے برا مانا اور کسی پریشانی میں 1000 کے 40 نوٹ تھما دیے۔ والد صاحب نے اضافی رقم واپس کی تو کیشیئر ان کا اس قدر ممنون ہوا کہ حلقہِ احباب میں شامل ہوا اور والد صاحب کا تعارف ہمیشہ اپنے محسن کے طور پر کروایا۔ یہ اور اس جیسے بہت سے واقعات ان کی عظمت پر دال ہیں۔

والد صاحب قبلہ کی ذات کی تیسری چیدہ جہت ان کی علم دوستی تھی۔ مالی مشکلات اور دیگر معاملات کے باعث باقاعدہ تعلیم فقط میٹرک تک حاصل کی، مگر مطالعے کا شوق زندگی کے آخری دن تک رہا۔ نوائے وقت اخبار روزانہ پڑھتے اور یہ معمول تادمِ مرگ جاری رہا۔ اخبار کے تمام سلاسل جیسے نورِ بصیرت، سرراہے، اداریہ کا عمیق مطالعہ کرتے۔ کالم نگاروں میں جناب عرفان صدیقی، جناب عطاء الحق قاسمی، محترمہ طیبہ ضیاء اور جناب اجمل نیازی مرحوم والد صاحب کو بہت محبوب تھے۔ تاریخی کرداروں کے بارے میں چھپنے والے سلاسل بہت شوق سے پڑھتے۔ ٹیپو سلطان کے بارے میں خان آصف کا لکھا ہوا ناول ایک مرتبہ کسی جریدے میں قسط وار چھپا تو والد صاحب نے سارا پڑھا۔ ٹیپو سلطان کے بہت بڑے مداح تھے، اور ہمیشہ اس کا ذکر عظیم الشان الفاظ میں کیا۔ پی ٹی وی کا ٹیپو سلطان پر بنایا گیا انہیں ڈرامہ انہیں بالکل پسند نہ آیا، کہ ان کے نزدیک اس ڈرامے میں ٹیپو کو ایک کم زور شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ شعر و سخن سے بہت رغبت تھی۔ سنہ 2004 میں طارق عزیز شو بزمِ طارق عزیز کے نام سے دوبارہ شروع ہوا تو بیت بازی کا سلسلہ بہت اہتمام سے دیکھتے۔ حبیب جالب، استاد دامن اور فیض احمد فیض انہیں بہت پسند تھے۔ جالب کے تو ایسے مداح تھے کہ جالب کی کئی انقلابی نظمیں انہیں از بر تھیں۔ جالب کی اسیری کے قصے اکثر سنایا کرتے۔ مزید یہ کہ عیدین پر پی ٹی وی پر نشر ہونے والا مزاحیہ مشاعرہ ضرور سنتے۔ جناب انور مسعود ان کے پسندیدہ ترین شاعر تھے۔ ان کی کئی نظمیں جیسے "لسی تے چا"، "جہلم دا پل"، "سائیڈ ایفیکٹس" انہیں زبانی یاد تھیں اور اکثر ہمیں سنایا کرتے۔ ساتھ ہی ساتھ  نعتیہ کلام سے بہت رغبت تھی۔ سید فصیح الدین سہروردی، مرغوب ہمدانی اور محبوب ہمدانی ان کے پسندیدہ نعت خواں تھے۔ ان کی پسندیدہ نعت "جب مسجدِ نبوی ﷺ کے مینار نظر آئے " تھی۔  سچ کہوں تو مجھے شعر و سخن سے رغبت ان کے وسیلے سے ہوئی، ورنہ میں تو شاعری پڑھنے، سننے اور یاد کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتا تھا۔

یہ بلاشبہ ان کی علم دوستی ہی تھی کہ ان کی زندگی کا مقصد اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوانا ہی رہا۔ مجھے بیکن ہاؤس میں پڑھایا۔ میں وہاں نرسری میں داخل ہوا اور میٹرک وہاں سے کیا۔ اس دوران کئی قسم کی مالی مشکلات درپیش آئیں، مگر ابو نے میری تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ میں نے بیکن ہاؤس سے بہت کچھ سیکھا جو زندگی میں میرے بہت کام آیا اور آج تک آتا ہے۔ وہاں سے استاد محترم قبلہ شرجیل کامران (جنہیں میں استاد جی یا مرشد پاک کہتا ہوں) جیسے نگینے لوگ ملے، جن کا ساتھ میرے لیے دنیا و ما فیہا سے بڑھ کر ہے۔ میری ذات سے میرا اسکول نکال دیں تو خس و خاشاک کے سوا کچھ نہیں بچتا، اور بیکن ہاؤس کو میری زندگی میں داخل کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ میرے والد کا ہے۔ میری ذات پر ان کا یہ احسان اس قدر عظیم ہے کہ الفاظ میں احاطہ ممکن ہی نہیں۔ میں نے ایک مرتبہ کہا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ شیخوپورہ میں کوئی سرکاری کتب خانہ ہے اور مجھے وہاں کی رکنیت چاہیے۔ ابو نے مجھے وہاں کی تاحیات رکنیت دلوائی اور مجھے خود کتب خانے چھوڑنے اور وہاں سے لینے جاتے۔ اسی طور انہوں نے میرے بہن بھائیوں کے تعلیمی سفر میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ بھائی گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہوا اور برسرِ روزگار ہے جب کہ ہم شیرہ انگریزی ادب میں ایم-اے کر رہی ہے، جسے وہ تادمِ مرگ کالج چھوڑتے اور وہاں سے لیتے رہے۔ وہ دفاتر میں بڑے افسران سے ملتے تو خواہش کرتے کہ ان کے بچے بھی ایسے ہی اچھے اداروں میں اعلیٰ عہدے دار بنیں۔ اس حوالے سے کچھ باتوں کا ذکر آئندہ سطور میں کرتا ہوں۔

انہیں کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ میں نے ان سے زیادہ اپنے کام سے مخلص کسی کو نہیں دیکھا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ انہوں نے راتیں اپنے کام کی جا گزاریں۔ ان کی کام کرنے کی لگن مثالی تھی، جس پر کئی دیوان کہے جا سکتے ہیں۔ اجمالی طور پر کچھ عرض کروں تو یہی کہوں گا کہ جب ان کی عمر 60 برس ہوئی تو میں از راہِ تفنن کہا کہ اگر آپ سرکاری ملازم ہوتے تو آج ریٹائر ہو جاتے۔ کہنے لگے پتر چنگا اے میں سرکاری ملازم نئیں، کیوں کہ میں ریٹائرمنٹ لینی ای نئیں۔ اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری کی۔ وہ آخری دم تک کام کرتے رہے۔ وفات سے ایک روز قبل کہتے کہ مجھے لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے دو بیٹے برسرِ روزگار ہیں، سو آپ کام کرنا بند کر دیں۔ میں کہتا ہوں، "اللہ میرے پُتراں نوں اینا دوے کہ اے رکھ رکھ پُلن، مگر اے بڈھے وی ہو گئے تے میں ایناں نوں اپنی کمائی اچوں ایناں دی جیب اچ پیسے پایا کراں گا۔"

والد صاحب کو دینِ اسلام سے بہت لگاؤ تھا۔ وہ اسلام کو اپنے اور کُل عالم کے لیے ذریعہِ نجات سمجھتے۔ نبی پاک ﷺ کا ذکر ہوتا تو ان کی آنکھیں چمک اٹھتیں اور پھر جھک جاتیں۔ سنہ 2017 کے اواخر اور 2018 کے اوائل میں انہیں عمرے کی سعادت حاصل ہوئی۔ سرکار ﷺ کے روضے پر حاضری کی یادیں ان کے دل پر نقش رہتیں۔ کعبتہ اللہ کی باتیں بتایا کرتے۔ وہ سفر ان کی زندگی کی بہت بڑی خواہش تھی جو ربِ کریم نے اپنے بے پایاں فضل سے پوری کی۔ نماز کی پابندی وہ عمرے سے قبل بھی کرتے تھے، تاہم عمرہ ادا کرنے کے بعد انہوں نے اس جانب مزید توجہ کی اور اب باقاعدگی سے نماز ادا کرتے۔ فجر کی نماز کے بعد بہت طویل دعا کرتے۔ بزرگانِ دین سے بہت عقیدت رکھتے۔ داتا گنج بخش علیہ الرحمہ، خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ اور میاں شیر محمد شرقپوری علیہ الرحمہ سے انہیں بہت عقیدت تھی۔ فقیر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ داتا گنج بخش علیہ الرحمہ اور میاں شیر محمد شرقپوری علیہ الرحمہ کے مزاراتِ اقدس کی حاضری ابا جی کے ہم راہ نصیب ہوئی۔ وہاں جا کر ان کی کیفیت عجب ہو جاتی۔ یہ ان بزرگان سے محبت ہی کا ثمر ہے کہ وقتِ رخصت ان کے لب پر کلمہ طیبہ، درود شریف اور دیگر مسنون اذکار کا ورد جاری تھا۔

ایک پہلو ایسا بھی ہے جس کے ذکر کے بنا والد صاحب کی شخصیت کا تذکرہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ انہیں کھیلوں سے بہت خاص انس تھا۔ نوجوان تھے تو ہاکی اور فٹ بال کھیلتے تھے۔ ہاکی سے انہیں بہت لگاؤ تھا۔ مجھے اور چھوٹے بھائی کو ہاکی کھیلنا سکھایا۔ گھر کے قریب موجود جامع ہائی اسکول میں ہاکی کا باقاعدہ میدان موجود تھا۔ وہاں ہم تینوں ہاکی کھیلتے۔ انہیں اس کھیل کی تمام جزیات کا بہ خوبی علم تھا۔ ہاکی کے تمام کھلاڑیوں کے نہ صرف نام یاد تھے بلکہ ان کے کھیل سے جڑے تمام اہم واقعات انہیں از بر تھے۔ سمیع اللہ کو بہت پسند کرتے۔ کہتے اس جیسا کھلاڑی نہ کوئی اس سے پہلے تھا، نہ بعد میں ہوا۔ اس کے علاوہ حنیف خان، حسن سردار، شہناز شیخ، اصلاح الدین، کلیم اللہ، شہباز سینیئر اور منظور جونئیر بہت پسند تھے۔ فٹ بال بھی بہت پسند تھا، مگر کہتے تھے کہ یہ لیگز وغیرہ کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی، بس ورلڈ کپ دیکھ کر ہی کچھ پرانی یادیں تازہ ہوتی ہیں۔ کرکٹ کے بارے میں معلومات واجبی سی تھی، مگر پھر بھی کچھ کرکٹرز انہیں بہت پسند تھے۔ ویو رچرڈز، سنیل گواسکر، جاوید میاں داد، اظہر الدین، عمران خان، وسیم اکرم، برائن لارا اورعبدالرزاق کے بہت مداح تھے۔  کرکٹ کے لیے میری رغبت دیکھ کر وہ کرکٹ دیکھنا شروع ہوئے۔ کہتے تھے کہ مجھے عماد کی وجہ سے کرکٹ دیکھنے کا شوق ہوا۔ دیکھی تو پہلے بھی تھی مگر دو ایک مرتبہ کچھ پریشان کن میچز دیکھ کر طبیعت میں تناؤ محسوس ہوا تو پھر کرکٹ دیکھنا چھوڑ دی۔ یہ عجب بات ہے کہ حالیہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سارا دیکھا۔ بھارت کے خلاف پاکستان کی جیت پر پھولے نہ سمائے اور جب پاکستان ہارا تو بہت متانت سے ردِ عمل دیا۔  مجھے ٹیسٹ میچز دیکھنے کا شوق ہے۔ ایک مرتبہ میں ٹیسٹ میچ دیکھ رہا تھا تو کہتے کہ تم کیا پانچ دن ایک ہی میچ دیکھتے رہتے ہو۔ میں نے کہا ٹیسٹ کرکٹ کرکٹرز کے صبر کا امتحان ہوتا ہے۔ کہنے لگے: "اے تے ویکھن آلے دے صبر دا امتحان اے!"

 والد صاحب کو فلم بینی کا بھی بہت شوق تھا۔ اپنی جوانی کے زمانے میں بہت سی فلمیں دیکھ رکھی تھیں۔ ان کا ذکر اکثر کرتے۔ یوسف خان (پاکستانی)، دلیپ کمار، وحید مراد، امیتابھ بچن، محمد علی، شاہد، درپن، سنتوش اور ندیم انہیں بہت پسند تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ متعدد مزاحیہ اداکار بھی بہت پسند تھے۔ ننھا، منور ظریف، رنگیلا اور البیلا کا کام انہیں بہت پسند تھا۔ اب بھی کبھی وقت ملتا تو منور ظریف اور ننھا کی فلمیں ضرور دیکھتے۔ الف نون ڈرامہ بہت پسند تھا۔ اکثر مجھ سے فرمائش کرتے کہ انٹرنیٹ پر الف نون کی کوئی قسط دکھاؤ۔ ٹی وی کے دیگر اداکاروں میں عابد علی، محمد قوی خان، سہیل احمد اور شفیع محمد شاہ بہت پسند تھے۔ اس کے علاوہ انہیں موسیقی سے بھی رغبت تھی۔ نصرت فتح علی خان، مہدی حسن، محمد رفیع، نور جہاں، لتا منگیشکر، ناہید اختر اور نیرہ نور کی گائیکی انہیں بہت پسند تھی۔ محمد رفیع کا وہ واقعہ اکثر سنایا کرتے جب اس نے ہمیشہ کے لیے محمد رفیع کہلوانا پسند کیا۔    

اب کچھ یاداشتیں ایک بیٹے کے طور پر۔

میں ان کی پہلی اولاد ہوں، اس لیے میری ان کے ساتھ بہت سی یاداشتیں ہیں۔ کچھ باتوں کا ذکر اجمالی طور پر کرتا ہوں۔ میں نے کچھ ہوش سنبھالا تو ایک سایہِ شفقت اپنے اوپر ایسا پایا جو ہمہ وقت میری فلاح کے لیے کوشاں رہتا۔ میری ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی خواہش کو پورا کرنا والد صاحب کے لیے کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ وہ شام کو گھر آتے تو کھانا کھانے کے بعد ہمارا مشغلہ رات گئے تک شہر کی خاک چھاننا ہوتا۔ چھٹی والا دن تو مثلِ عید ہوتا۔ ہر جمعۃ المبارک جمعہ کی نماز الگ الگ مسجد میں پڑھتے۔ کبھی ریلوے اسٹیشن والی مسجد میں، کبھی غلہ منڈٰی والی مسجد میں، کبھی اسٹیڈیم پارک سے ملحقہ گول مسجد میں اور کبھی گورنمنٹ ہائی اسکول والی مسجد (جسے میں اس وقت تالاب والی مسجد کہتا) میں۔ وقت کا پہیہ کچھ آگے بڑھا تو ابو کے ساتھ نگر نگر کی سیر بھی کی۔ میں نے چار برس کی عمر سے قبل ہی مری، ایوبیہ، پتریاٹہ، بھوربھن اور دیگر شمالی علاقہ جات کی سیر کر لی تھی۔ شرارتی بہت تھا، تو ابو نے میری روز روز کی "روپوشی" سے گھبرا کر مجھے اسکول داخل کروایا۔ بیکن ہاؤس میں بارہ برس گزارے اور اس سفر کا اختتام ایک نہایت شان دار یاد پر ہوا، جس کے لیے میں اپنے اسکول کا نہایت شکرگزار ہوں۔

سنہ 2008 میں میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو اسکول میں میری اول پوزیشن تھی۔ اسکول میں معمول تھا کہ ہر سال میٹرک اور او لیول کرنے والے طلبا کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ہوتا۔ 2007 تک معمول یہ تھا کہ تقریب کے مہمانِ خصوصی کے طور پر ڈپٹی کمشنر یا کسی اور اعلیٰ انتظامی یا عدالتی عہدے دار کو بلایا جاتا۔ تاہم 2008 میں اسکول نے اس روایت کو بدلا اور فیصلہ کیا کہ اسکول میں اول آنے والے کے والدین کو مہمانِ خصوصی بنایا جائے گا۔ یہ فیصلہ تقریب سے کچھ دن قبل کیا گیا۔ 6 فروری 2009 کو تقریب کا انعقاد ہوا جس میں اسکول نے مجھے اور دیگر کچھ طلبہ کو طلائی تمغے سے نوازا۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی میرے والدین تھے، جنہوں نے طلباء میں اعزازات تقسیم کیے (تاہم میری باری آئی تو میرے والد کے ساتھ کھڑے پرنسپل صاحب جناب مصطفیٰ طاہر نے خود تمغہ پہنایا)۔

والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ میری نالائقی اور نااہلی کہ ایسا نہ ہو سکا۔ میں نے ان کے مشورے پر بی کام میں ایڈمیشن لیا۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور 2016 میں میں نے ایم کام کیا اور مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کر دی۔ ایک روز انہیں بتایا کہ محکمہ جیل خانہ جات میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل کی 100 اسامیاں مشتہر ہوئی ہیں۔ والد صاحب نے محکمہ جیل کے لیے بہت سا فرنیچر بنایا تھا اور وارڈر سے لے کر ڈی آئی جی تک ان کے حلقہِ احباب میں شامل تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ اس ملازمت کے لیے امتحان دو، اگر منتخب ہو گئے تو بے شک نہ کرنا، جو کام پسند ہوا وہ کر لینا۔ میں نے حکم کی تعمیل میں امتحان دیا، انٹرویو دیا۔ اللہ کے فضل، والدین کی دعاؤں اور اساتذہ کی محنت کے طفیل صوبہ  بھر میں 12 ویں پوزیشن آئی۔ 3 اپریل 2017 کو مجھے ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد تعینات کیا گیا تو مجھے چھوڑنے فیصل آباد گئے۔ 5 اپریل کو قومی احتساب بیورو میں منتخب ہو گیا۔ انہیں فون پر اطلاع دی تو خوشی سے رونے لگ گئے۔ 7 اپریل کو فیصل آباد ملنے آئے تو مجھے وردی میں دیکھ کر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ مجھے بار بار کہنے لگے کہ اشتیاق کو بلاؤ، اشتیاق کو بلاؤ۔ اشتیاق ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد کا وہ کارندہ تھا جو قیدیوں کی نقدی اکٹھی کرنے پر مامور تھا۔ اشتیاق آیا تو اسے 500 روپے کا نوٹ دیا۔ اس نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب میرا بیٹا وردی پہن کر اپنے کمرے سے باہر آیا تھا تو سب سے پہلے تم نے اسے سیلوٹ کیا تھا۔ یہ بات مجھے یا اشتیاق کو یاد نہیں تھی، مگر والد صاحب کی تیز نگاہی اور مجھ سے لازوال محبت نے یہ بات یاد رکھی اور پھر اس محبت کا اظہار بھی کیا۔ زندگی میں یہ بات کبھی نہ بھولے گی کہ جب 11 ستمبر 2017 کو پولیس کالج سہالہ میں نیب کے بنیادی تربیتی کورس میں پانچویں پوزیشن کا انعام وصول کرنے اسٹیج کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا، تو میرے لیے تالیاں بجانے والے ہاتھوں میں دو ہاتھ میرے والد صاحب کے تھے۔ تقریب کے بعد ان سے ملا تو کہتے کہ شاباش پتر، تھینک یو۔ اخیر کر دتی او!

ایسی کئی یادیں میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ میری ذات پر ان کے اتنے احساانت ہیں کہ ان کا شمار کسی طور ممکن نہیں۔ ان کے ساتھ گزرا ہر لمحہ متاعِ حیات ہے۔ انہوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ ہمیشہ اخلاقیات کا درس دیتے تھے۔ قناعت کی انہیں کوئی کمی نہیں تھی۔ مجھے یہ سبق بھی ان سے ہی ملا۔ ہمیشہ کہا کہ مال و دولت کی حرص سے دور رہا جائے کہ یہی فلاح کا راستہ ہے۔ مجھے ایک مرتبہ کہتے کہ اپنی جیب میں ہمیشہ قلم رکھا کرو۔ میں حکم کی تعمیل کرتا مگر کبھی کوتاہی ہوئی تو بہت برا مانا۔ ان کے جانے کے بعد ان کی تدفین کا عمل جاری تھا۔ میں نے خود اپنے گنہ گار ہاتھوں سے انہیں لحد میں اتارا۔ کسی وجہ سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہاں قلم موجود تھا۔ اب جب بھی ان سے ملنے جاؤں تو جیب میں قلم رکھ کر جاتا ہوں۔

والد صاحب کئی برس سے عارضہِ قلب میں مبتلا تھے، مگر کسی موڑ پر بھی ایسی صورتِ حال پیش نہ آئی کہ مرض جان لیوا ثابت ہوتا۔ کچھ ماہ قبل انجیوپلاسٹی کی کوشش ناکام ہوئی۔ پھر طبیعت کبھی سنبھلی اور کبھی بگڑی، مگر کسی بھی مرحلے پر ایسا محسوس نہ ہوا کہ یہ چند دنوں کے مہمان ہیں۔ وفات سے دو روز قبل پیر کی رات طبیعت بہت بگڑی مگر کچھ دیر بعد علاج کے ذریعے سنبھلی۔ منگل کے روز خون کے نمونوں کی تشخیص کروائی تو معلوم پڑا کہ انہیں ایک رات قبل دل کا دورہ پڑا تھا۔ تب تک وہ ہسپتال داخل ہو چکے تھے۔ بدھ کا دن کسی قدر تکلیف میں گزارا، مگر شام کو سنبھل گئے اور رات ٹھیک گزری۔ میں انہیں سوتا ہوا چھوڑ کر گھر آٰیا۔ جمعرات کی صبح دل کا دورہ پڑا، مگر اس سے بھی جاں بر ہوئے۔ معالجین نے تفصیلی معائنہ کر کے کہا کہ فی الوقت خطرے سے باہر ہیں، مگر طویل المدتی علاج کے لیے ان کا جلد از جلد بائے پاس آپریشن کروا لیا جائے۔ میں نے والدہ صاحبہ کے ساتھ مل کر معالجین کی رائے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے فیصلے کی توثیق استاد جی اور ایک قریبی دوست سے مشورہ کر کے حاصل کی۔ مگر تقدیر کو شاید کچھ اور منظور تھا۔ 18 نومبر 2021 بہ روز جمعرات صبح 9 بجے انہیں پھر دل کا دورہ پڑا۔ معالجین (جن میں میرے عزیز ترین ماموں ڈاکٹر خادم حسین اور میرا ماموں زاد ڈاکٹر اریب خادم بھی شامل تھے) نے انہیں جاں بر کرنے کی سر توڑ کوششیں کی۔ علاج گاہ میں ہنگامی صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے تمام آلات موجود تھے، جن کا معالجین نے استعمال کیا، مگر حکمِ ربی ظاہر ہوا اور قبلہ والد صاحب نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ دن ساڑھے دس بجے معالجین نے اس بات کی تصدیق کی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

 میرا چھوٹا بھائی فوت ہوا تو میں خود بہت چھوٹا تھا، تین سال کا تھا۔ میرا کزن چل بسا ہوا تو میں اپنے گھر سو رہا تھا، منجھلے ماموں داغِ مفارقت دے گئے تو اسکول تھا، شیخ زاید ہسپتال لاہور میں نانا جان اللہ کو پیارے ہوئے تو گھر تھا، نانی اماں میرے پیدا ہونے سے پہلے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ دادا جان راہیِ عدم  ہوئے تو میں کالج تھا، دادی اماں ہسپتال جاتے ہوئے دارِ فانی سے رخصت ہوئیں تو گھر تھا۔ چھوٹے ماموں دنیا سے گئے تو اسلام آباد تھا۔ میو ہسپتال لاہور میں خالو جان انتقال فرما گئے تو میں اپنے گھر تھا۔ میں نے یہ سب دکھ دیکھے تھے، مگر کسی کو اپنے سامنے فوت ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ بلکہ میں نے زندگی میں کسی کو فوت ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ مگر میرے ابو میری نظروں کے سامنے اپنے اللہ سے جا ملے۔ انہوں نے میرے سامنے آخری سانسیں لیں۔ وفات سے کچھ دیر پہلے میں ان کے پاس گیا تو وہ کلمہ پڑھ رہے تھے۔ میرا دل ڈوبا مگر میں نے انہیں منع نہیں کیا، شاید اس لیے کہ مجھے لگا کہ یہ ابھی اسی اسم کی برکت سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ کلمات آخری کلمات ثابت ہوں گے۔
 
نمازِ جنازہ میں ایک جمِ غفیر شریک تھا۔ تِل دھرنے کو جا نہ تھی۔ ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دل سوگ وار۔ تدفین کے وقت ہر لب پر کلمہ طیبہ، درود شریف اور اذکار کا ورد جاری تھی۔ کوئی تلاوت کر رہا تھا اور کوئی ذکر اللہ میں مشغول تھا۔ استادِ محترم نے بعد از تدفین اذان دی۔ بعد ازاں کہنے لگے کہ ایسی تدفین شاذ ہی دیکھی جہاں قبرستان میں موجود ہر شخص کی توجہ کا مرکز تدفین کا عمل اور مسنون اذکار کا ورد تھا۔ یہ فقط ربِ کریم کی لازوال اور باکمال عطا ہے۔

مجھے یہ تحریر لکھتے ہوئے ایسے بہت سے اشعار یاد آ رہے ہیں جو ایسے موقع پر لکھے جاتے ہیں۔ خؔالد شریف صاحب کا شعر تو زباں زدِ عام ہے۔ شہزاد احمد شہزؔاد کی ایک غزل اسی موضوع پر ہے۔ غالؔب نے اپنے جواں سال بھتیجے کی میت پر بہت عمدہ غزل کہی، جس کا چوتھا شعر تو انتہائی لاجواب ہے۔ مگر میں نے دانستہ طور پر یہاں ایک بھی شعر نہیں لکھا۔ میرے والد مجھ سے جدا ہوئے ہی کب ہیں۔ وہ ہر وقت میرے ساتھ ہیں۔ مجھے ان کے کپڑوں سے ان کے جسم کی مہک آتی ہے۔ میں گھر سے باہر نکلوں تو قریہ قریہ مجھے ان کی یاد دلاتا ہے۔ یاد کیا دلانا، وہ تو بھولتے ہی نہیں۔ یہ نظامِ الہٰی ہے کہ بس کچھ دیر کے لیے وہ وہیں چلے گئے ، جہاں سے آئے تھے، اور ہم بھی کچھ روز بعد وہیں جائیں گے، جہاں وہ ہیں۔ یہی اللہ کی رضا ہے۔ جس میں راضی رہنے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ مالکِ کائنات اپنی لازوال کتاب کی دوسری سورۃ میں ارشاد فرماتا ہے:

و لنبلونکم بشی ء من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرت – و بشرِ الصبرین۔ الذین اذا اصابتھم مصیبۃ - قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اولئک علیھم صلوت من ربھم و رحمتہ و اولئک ھم المھتدون۔ (آیت 155-157)

ترجمہ: "اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کوخوشخبری سنا دو۔۔ وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔"

والد صاحب کا جانا ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے، مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد "لا یکلف اللہ نسفا الا وسعھا" ہمارے لیے سبق ہے کہ وہ اللہ اپنے بندوں کا ہر حال میں خیال رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر مصیبت کے وقت صبر کی توفیق دے تو اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ اللہ کہتا ہے کہ جو صبر کریں اور اپنے آپ کو مصیبت کے وقت اللہ کے سپرد کریں تو ایسے بندوں پر اللہ کی طرف سے درود اور رحمت ہے۔ اللہ اکبر! یہ وہ نعمت ہے  جو اللہ نے اپنے مقبول بندوں کو عطا کی۔ اور جو نعمت اللہ کے مقبول بندوں کو ملی ہو، وہی نعمت طلب کرنے کا قرینہ اللہ نے ہمیں اپنی کتاب کی پہلی سورۃ کی اخروی آیات میں بتلایا۔ دعا ہے کہ ایسی تمام دعائیں ہمارے حق میں قبول ہوں اور ہمیں صحیح معنوں میں رب تعالیٰ کی خوشنودی عطا ہو، کہ یہی دراصل حقیقی سرمایہِ حیات ہے۔