الوداع کوکن ہاف

بچپن سے ہی دو روگ پال لئے، کتابیں اور فلمیں !

 

محلے میں جب بھی کسی گھر میں وی سی آر چلتا، پہلی صف کے امیدوار ہم ہی ہوتے .امیتابھ بچن کی فلمیں اسی زمانے میں دیکھیں اور بے شمار دیکھیں۔ ہمارے صاحب شادی کے بعد ہماری دیکھی جانے والی فلموں کی اس طویل فہرست پہ بہت حیران بلکہ پریشان تھے۔

بڑے بھائی کی ڈانٹ، اماں کی گھوریاں، اور ابا کی خاموشی، کچھ بھی ہمارا رستہ نہیں روک سکتیں ۔ اماں ہماری ہٹ دھرمی پہ ماتھا پیٹ لیتیں اور بڑبڑاتیں، توبہ ہے لڑکی ذات اور فلم دیکھنے کا شوق تو دیکھو۔ ہم پٹ سے جواب دیتے جب بھائی پلازہ سنیما پہ فلم دیکھ سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں ۔

یوں تو امیتابھ بچن ہر فلم میں ہی باکمال تھا مگر امیتابھ اور ریکھا کی جوڑی نے تو قیامت ہی ڈھا دی۔ ہماری ٹین ایج اور فلم سلسلہ، ہم کبھی بھی اس کے سحرسے نہ نکل سکے۔

اس کا ایک دوگانا جو ٹیولپ کے باغات میں فلمایا گیا، ہمیں مسحور کرتے کرتےہمارے خوابوں میں ایک خواب کا اضافہ کر گیا۔ ان ٹیولپ کے باغوں میں گھومنے کا خواب، مگر کچھ معلوم نہ تھا کہ یہ باغات روئے زمین پر ہیں کہاں ۔

وقت کا پہیہ گھوما، ہم بڑے ہو گئے۔ تعلیم، غم روزگار اور بھی سب زندگی کےسلسلے مگر جب بھی یادوں کی بارات اتری، رنگ برنگے ٹیولپ پلکوں کی اوٹ میں آنکھوں میں سجے ستاروں کی طرح جھلملانے لگے۔

اجنبی ملکوں کی سیاحت سے آشنائی ہوئی، اللہ کی بنائی ہوئی زمین کی رعنائیاں دیکھیں اور یہ پیاس بڑھتی ہی چلی گئی اور بالآخر ایک دن ٹیولپ کے باغات پردہ خواب سے پردہ وجود میں آ گئے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم نے اپنی فیلڈ میں سپر سپیشلائزیشن کا سوچا۔ ہم کافی عرصے سے میڈیکل کے طالب علموں کو پڑھا رہے تھے سو قرعہ انتخاب میڈیکل ایجوکیشن کے نام پڑا۔ ماہرین سے معلوم ہوا، اس شعبے کا کعبہ ہالینڈ کی ماسٹرخت یونی ورسٹی ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ طبی تدریس کے رموز سیکھنے آتے ہیں ۔

ماسٹرخت ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر جو یورپ کے تین ممالک ہالینڈ، جرمنی اور بیلجئم کی سرحد پہ واقع ہے اور ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈم سے تین گھنٹے کے ٹرین سفر کی دوری پر ہے۔

ایمسٹرڈم کا نام سنتے ہی وہ تمام فلمیں یاد آ گئیں جس میں سمگلرز اور پولیس کا تعاقب اور نہروں میں چلتے ہوئے سٹیمر دہلتے دل کے ساتھ دیکھے تھے۔ کسی زمانےمیں ہپیوں کی پسندیدہ منزل۔ (اور یہ تو بہت بعد میں دریافت ہوا کہ ایمسٹرڈیم کی ایک خاص وجہ شہرت وہاں کا لال کرتی بازار بھی ہے۔ خیر، اس کا راستہ بتانے والے پاکستان میں بہت سے خضر صورت مل جائیں گے، ہم پھولوں کے کنج ہی کا ذکر کریں گے۔ پانی کے پرندوں اور محبت آشنا آنکھوں کو بن بادل بارشوں کے دشت سے کیا واسطہ؟)

ماسٹرخت یونی ورسٹی میں داخلے کے مراحل سے گزرنے کے بعد جب ہم نے رخت سفر باندھنے اور کچھ معلومات حاصل کرنے کے لئے گوگل کھنگالا تو یکلخت چونک سے گئے۔ وہ خواب جو کئی سال پہلے فلم سلسلہ سے شروع ہوا تھا، چھن سے کمپیوٹر کی پردۂ سکرین پہ سج گیا۔

ٹیولپ کے پھول قطار اندر قطار ہماری نظر کے سامنے تھے، رنگ ہی رنگ، ہوش ربا، حد نظر تک پھیلے ٹیولپ ہی ٹیولپ، جنہیں ہم نے بچپن میں پردۂ سکرین پہ دیکھا تھا۔

ٹیولپ کے باغات کا یہ مجموعہ ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کے نواح، لیز میں پایا جاتا ہے اور کوکن ہاف کہلاتا ہے۔

یہ جان کر ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا، ہماری مدتوں کی خواہش پوری ہونے جا رہی تھی۔ ہمارا ماسٹرخت تک کا سفر ایمسٹرڈم سے شروع ہونا تھا اور ہالینڈ کی قومی ایر لائن کے ایل ایم نے ہمیں مسقط سے ہالینڈ پہنچانا تھا۔

ہمارا کورس مئی کے تیسرے ہفتے سے شروع ہونا تھا۔ جب ہم نے ایک سرشاری کے عالم میں کوکن ہاف کے متعلق معلومات حاصل کرنا شروع کیں تو کوکن ہاف کے ٹیولپ گارڈن کے کھلنے اور بند ہونے کی تاریخیں دیکھتے ہی ساری بے چینی اور سرشاری پہ اوس پڑ گئی۔ ہماری امیدوں کےپھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے تھے۔

کوکن ہاف کا باغ مارچ کے وسط سے مئی کے وسط تک کھلتا ہے۔ مئی کے آخرتک سب ٹیولپ کٹ جاتے ہیں۔ ٹوٹی کہاں کمند، دو ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا!

جذبات سرد پڑ چکے تھے اور ہماری سرشاری افسردگی میں بدل چکی تھی۔ اس اثنا میں ہماری بڑی بیٹی نے امید کی کرن جگائی۔ ہمارا ماسٹرز پروگرام دو سال کا تھااور دونوں برس کے شروع میں ایک سمیسٹر ہم نے ماسٹرخت میں گزارنا تھا۔ سو ،طے یہ پایا کہ اگلے سال ہم کوکن ہاف کے بند ہونے سے پہلے ایمسٹرڈم پہنچیں گے۔

لیجیے جناب، اگلا برس آن پہنچا۔ ہم علی الصبح ایمسٹرڈم لینڈ ہوئے۔ شیپول ائرپورٹ کے بالکل نیچے نیشنل ٹرین سٹیشن ہے جہاں سے تمام شہروں کو جانے کے لئے تیزرفتار ریل گاڑیاں چلتی ہیں ۔ ماسٹرخت جانے کے لئے شام پانچ بجے کی ٹرین کا ٹکٹ خریدا۔ سامان رکھنے کے لئے لاکر روم میں کرائے پہ لاکر لیا، سامان ٹھونسا۔ کوکن ہاف جانے کے اشتیاق میں ہم رات بھر کے سفر کے باوجود تازہ دم تھے۔ اماں کہا کرتی تھیں، شوق کا کوئی مول نہیں  اور وہ صحیح کہتی تھیں ۔

ائرپورٹ کے باہر بس سٹینڈ سے کوکن ہاف کا ٹکٹ خریدا اور سیاحوں سے بھری بس میں سوار ہو گئے۔ چالیس منٹ کی مسافت تھی جو پلک جھپکتے میں کٹ گئی۔

گیٹ سے ٹکٹ خریدا اور ہم کوکن ہاف میں داخل ہونے کو تھے۔

کوکن ہاف، یورپ کا باغ پکارا جانے والا بتیس ایکڑ رقبے پہ محیط، دنیا کا سب سے بڑا پھولوں کا باغ ہے۔ ایکسپورٹ بڑھانے کی غرض سے اس باغ کا آغاز 1949 میں ہوا۔ اس میں سالانہ سات ملین یا ستر لاکھ پھول اگائےجاتےہیں جس میں ٹیولپ کے علاوہ للی، ڈیفوڈل، کارنیشن اور گلاب شامل ہیں۔ ان پھولوں کی کاشت اکتوبر سے شروع کی جاتی ہے اور کٹائی مئی میں مکمل ہو جاتی ہے۔ روزانہ 26 ہزار سیاح کوکن ہاف کی دید کے لئے آتے ہیں ۔ 2019 کے سیزن میں کل تعداد پندرہ لاکھ تک پہنچ گئی۔

گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ حد نظر تک ایک ہی نظارہ تھا۔ بیچوں بیچ روشیں تھیں، کنارے پہ اونچے لمبے جھومتے درخت تھے، سیاحوں کی ٹولیاں تھیں، گائیڈ تھے۔ زندگی کا ایک ہی روپ یہاں نظر آتا تھا، جہاں پہ پھول کھلتے ہیں، جہاں خوشبو کا ڈیرہ ہے۔

نقشہ ٹکٹ کے ساتھ فراہم کیا گیا تھا۔ نقشہ کھولا، مختلف حصوں کی تفصیلات کے ساتھ سمتیں دی گئی تھیں۔ سوچا، یونہی چلے چلتے ہیں، شام تک جتنا دیکھ سکے، دیکھ لیں گے۔

کیا بتائیں، کیا کیا رنگ تھے؟ کیا کیا حسین پھول، بیلیں اور درخت قدرت کی نیرنگی کا مظہر تھے؟ کیا خوشبوؤں کا میلہ تھا! کیا جنت ایسی ہی ہوگی؟ ہم نے سوچا!

گہری سبز گھاس سے لدے میدان، اطراف میں کیاریاں، بیچ بیچ میں پھولوں سے لدے تختے جیسے جھومر میں سجے نگینے، کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے تالاب، کچھ روشوں کے کنارے ایسے درخت جو اوپر جا کے مل جاتے اور پھولوں کی چھت بن جاتی۔ چھوٹے چھوٹے بورڈز پہ پھولوں کے نام اور معلومات۔ ہر سیاح تصویریں اتارتے نہ تھکتا۔

ہماری نگاہیں اس منظر کی تلاش میں تھیں جس نے برسوں سے ہمیں قید کر رکھا تھا۔ ایک ہی رنگ کے ٹیولپس کے کھیت۔ نقشہ کھول کر دیکھا تو ابھی بہت سی پگڈنڈیاں، بہت سی روشیں پھلانگنی باقی تھیں ۔ ہمیں شوق دید میں چلنے، پھلانگنے بلکہ دوڑنے میں بھی کوئی عار نہیں تھا۔

اور پھر ہم وہاں تک جا پہنچے۔ پانی کی نہر بہتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیولپس سے بھرے میدان تھے۔ لمبی لمبی رنگارنگ پھولوں کی قطاریں تھیں ۔ ہمارے اشتیاق کا وہی عالم تھا جیسے تیس سال پہلے فلم سلسلہ دیکھی تھی۔ ایک لمحے کو یوں بھی لگا کہ کہیں سے ابھی امیتابھ اور ریکھا ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے نظر آ جائیں گے۔

یک لخت خیال آیا ہم کیسے تیس سال سے ایک تصور سے بندھے تھے اور پھر اس پرانے عکس کے تعاقب میں یہاں تک آن پہنچے۔ ہم بچپن کے زمانے میں پہنچ چکے تھے لیکن وقت ایسی فلم ہے جو گزر جائے تو دوبارہ دیکھی نہیں جا سکتی۔

دل خوش بھی تھا اور اداس بھی۔ شام ہونے کو تھی اور ہم نے پانچ بجےوالی ٹرین پہ بیٹھنا تھا۔ سو یادوں کے پنڈوراباکس کو بند کرتے ہوئے سلسلہ کو پرانی جگہ پہ رکھا اور کوکن ہاف کو اس کے اوپر والے شیلف پہ سجا دیا۔

الوداع، کوکن ہاف !